پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے گلوکار علی ظفر کے خلاف سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مبینہ مہم پر نو ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ملزمان میں گلوکارہ میشا شفیع، عفت عمر، علی گل پیر، لینیٰ غنی، حسیم الزمان، حمنہ رضا، ماہم، فریحہ ایوب اور فیضان رضا شامل ہیں۔
ایف آئی اے لاہور کے سائبر کرائم کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے دو سال پر مشتمل تحقیقات کے بعد ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔
سائبر کرائم ونگ کے مطابق ملزمان کو دفاع کے لیے تین سے زائد مواقع فراہم کیے گئے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کی دفعہ 20 کے تحت درج کی گئی ہے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق میشا شفیع اپنے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی گواہ یا ثبوت پیش نہ کر سکیں۔
علی ظفر نے چند روز قبل سوشل میڈیا پر اپنے اوپر تنقید کرنے والوں کے خلاف ایف آئی اے سے رابطہ کیا تھا۔
علی ظفر نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو دی گئی درخواست میں کہا تھا کہ پرائیڈ آف پرفارمنس ملنے پر ان کے خلاف سوشل میڈیا پر نامناسب مہم شروع کی گئی ہے جس میں نازیبا زبان استعمال کی جا رہی ہے۔
گلوکار علی ظفر کا ایف آئی اے کو درخواست میں کہنا تھا کہ ان کے خلاف یہ مہم ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چلائی جا رہی ہے۔
درخواست کے مطابق اس سازش میں میشا شفیع، ان کی دوست اور وکیل شامل ہیں۔ جب کہ ہراساں کرنے کے الزامات اور ان کے خلاف 'می ٹو' مہم چلانے کے لیے بے شمار جعلی اکاوئنٹس بھی بنائے گئے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ ان جعلی اکاوئنٹس میں سب سے نمایاں اکاؤنٹ NEHASAGOL1 ہے۔ یہ جعلی اکاؤنٹ میشا شفیع کے لگائے گئے الزامات سے تقریباََ 50دن قبل ہی بنایا گیا تھا۔ اس اکاؤنٹ کے ذریعے علی ظفر اور ان کے اہل خانہ کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے اور تصاویر شائع کی گئیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
درخواست میں مزید کہا گیا کہ اس اکاؤنٹ سے علی ظفر کے خلاف ایک سال میں 3000 سے زائد ٹوئٹس کی گئیں۔ جب کہ حیران کن طور پر اس اکاؤنٹ کے پہلے چھ فالوورز میں میشا شفیع کی وکیل نگہت داد، والدہ صبا حمید، خالہ بشرا حمید، دوست لینیٰ غنی اور ملزم حسیم الزمان شامل ہیں۔
درخواست کے مطابق ملزمان اس کے علاوہ متعدد جعلی ٹوئٹر، انسٹا گرام اور فیس بک اکاؤنٹس پر علی ظفر کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے طویل عرصے سے مہم چلا رہے ہیں۔
علی ظفر کی جانب سے ایف آئی کو دی گئی درخواست میں کہا گیا کہ اُن کے خلاف سوشل میڈیا پر چلائی جانے والے کئی اکاؤنٹس اچانک اس وقت ختم کر دیے گئے جب اُنہوں نے ایف آئی اے میں شکایت کے بارے میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کی۔
ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے حکام کے مطابق اُنہوں نے دو سالہ تحقیقات کے بعد نو ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ عہدیداروں نے بتایا کہ ایف آئی اے کی جانب سے تمام ملزمان کو دفاع کے تین سے زائد مواقع دیے گئے اور اُنہیں اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے بلایا گیا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی ایف آئی اے میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے نہیں آیا۔
ملزمان میں سے ایک خاتون نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان میں خواتین کو ہراساں کیے جانے سے متعلق تحفظ دینے کا کوئی قانون نہیں ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ بطور فن کار وہ اور میشا شفیع کام کے سلسلے میں مختلف جگہوں پر جاتی ہیں۔ لیکن ایسی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کیے جانے سے متعلق تحفظ دینے کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ملزم خاتون نے بتایا کہ وہ بھی علی ظفر اور ایف آئی اے کے خلاف ایک کیس میں مدعی ہیں۔
خاتون نے الزام لگایا کہ انہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے 19 اپریل 2018 کو گلوکارہ میشا شفیع نے ٹوئٹر پر علی ظفر پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا جس کے لیے میشا شفیع تین دسمبر 2018 کو ایف آئی اے میں پیش ہوئیں۔ جس میں عدالت نے انسٹا گرام انتظامیہ سے اداکار علی ظفر کو بدنام کرنے والے جعلی اکائونٹس کی تفصیلات طلب کیں تھیں۔
عدالت نے فیس بک اور انسٹا گرام انتظامیہ سے ریکارڈ کے حصول کی ہدایت کی تھی۔
سماعت میں ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا تھا کہ گلوکار علی ظفر کی درخواست پر ابتدائی تحقیقات مکمل کی گئی ہیں۔ انسٹاگرام پر ثنا سمیر اور دینز کے نام سے اکاؤنٹس موجود ہیں جہاں سے مدعی علی ظفر کے خلاف بیان بازی کی جا رہی ہے۔
یاد رہے گلوکارہ میشا شفیع نے گلوکارہ علی ظفر پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے ایک تقریب میں اُن کے ساتھ بدتمیزی کی اور ہراساں کرنے کی کوشش کی۔
جس کے بعد سے دونوں گلوکاروں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کی گئی تھی۔
میشا شفیع کے علی ظفر کے خلاف ہراساں کیے جانے کے الزامات کے بعد سوشل میڈیا پر 'می ٹو' ٹاپ ٹرینڈ میں رہا تھا۔