چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے جمعرات کو میمو اسکینڈل سے متلعق دائر آئینی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فریقین کے دلائل سنے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل انوار الحق سے استفسار کیا کہ صدر آصف علی زرداری نے میمو سے متعلق جواب عدالت عظمیٰ میں اب تک داخل کیوں نہیں کیا اور اگر صدر مملکت اپنا جواب جمع نہیں کرانا چاہتے تو انھیں عدالت کو اس کی وجوہات بتانی ہوں گی۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی عدالتی کمیشن بھی بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن عدالتی کارروائی کے بعد عاصمہ جہانگیر نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ’’میں ایسی انکوائری نہیں مانگتی جہاں مجھے پہلے چور کہا جائے اور میں کہوں کہ میں چور نہیں ہوں۔ میں (میرا موکل) اس وقت تک معصوم ہوں جب تک ان کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہو جاتا۔ میرے خلاف تو کوئی چیز ہے ہی نہیں۔‘‘
اس سے قبل مقدمے کے ایک اہم فریق سابق سفیر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے عدالت کو بتایا کہ حسین حقانی وزیراعظم ہاؤس میں مقیم ہیں اور سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان کی اپنے موکل سے ملاقات نہیں ہو سکی ہے اس لیے وہ حسین حقانی کی طرف سے بیان حلفی جمع کرانے سے قاصر ہیں جس پر بینچ نے سابق سفیر کو عدالت میں لانے کا حکم دیا۔
سخت حفاظتی حصار میں حسین حقانی کو سپریم کورٹ لایا گیا جہاں اٹارنی جنرل کے دفتر میں ان کی عاصمہ جہانگیر سے ملاقات کرائی گئی۔
حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے میمو اسکینڈل میں ملوث عناصر کو بے نقاب کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ میں آئینی درخواست دائر کر رکھی ہے جس میں صدرِ پاکستان، آرمی چیف، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حقین حقانی کے علاوہ منصور اعجاز کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
تمام فریقین ماسوائے صدر مملکت میمو کے بارے میں اپنے تحریری بیانات عدالت میں جمع کرا چکے ہیں۔
فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا کا موقف ہے کہ میمو ایک حقیقت ہے جس کی تحقیقات ہونی چاہئیں لیکن وفاق کی طرف سے جمع کرائے گئے بیان میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم اور صدرِ مملکت کا متنازع میمو سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس معاملے کی سماعت سپریم کورٹ کے دائر اختیار میں نہیں۔
مقدمے کی آئندہ سماعت جمعہ کو ہو گی۔
پاکستانی نژاد امریکی شہری منصور اعجاز نے اپنے ایک اخباری مضمون میں سب سے پہلے یہ انکشاف کیا تھا کہ حسین حقانی کے کہنے پر اُنھوں نے امریکی حکام کو صدر زرداری سے منسوب ایک خط یا میمو پہنچایا تھا، جس میں پاکستان کی فوجی قیادت کی برطرفی کے لیے امریکہ سے مدد مانگی گئی تھی۔
حسین حقانی اور حکومت پاکستان اس سے اظہار لا تعلقی کرتے ہوئے ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔
امریکی عسکری قیادت کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ 2 مئی کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف یک طرفہ امریکی آپریشن کے بعد پاکستانی فوج غضبناک ہے جس کے باعث سیاسی حکومت کے خلاف بغاوت کا امکان ہے۔
فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طرف سے عدالت عظمی میں جمع کرائے گئے بیان میں آرمی چیف نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ متنازع خط ایک حقیقت ہے۔
اس سے قبل جنرل کیانی نے اپنے جواب میں بغاوت کی منصوبہ بندی کے دعوؤں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے متنازع خط کے معاملے کو پاکستانی فوج کے حوصلے پست کرنے کی ناکام سازش قرار دیا۔