میکسیکو کی بلند ترین برفانی چوٹی سےنصف صدی قبل لاپتہ ہونے والے دو کوہ پیماؤں کی برف میں دبی ہوئی حنوط شدہ لاشیں دریافت ہوئی ہیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق، برف میں دبی لاشیں پوابیلا ریاست کے ان مقامی مہم جو ٹیم کے کوہ پیماؤں کی ہو سکتی ہے جو 55 سال پہلے چوٹی سر کرنے گئے تھے اور برفانی تودہ میں دب جانے کے بعد لاپتہ ہوگئے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ لاشیں آتش فشاں پہاڑ پر17,290 فٹ کی اونچائی پر ملی ہیں۔
پہلی لاش کی باقیات جمعرات کو اس وقت دریافت ہوئیں جب ایک کوہ پیما میکسیکو کی بلند ترین چوٹی 'پیکو ڈی اوری زابا' سر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نیچے پھسل گیا، اور اسے وہاں برف میں دبا ہوا انسانی سر اور بازو ملا۔
دوسری حنوط شدہ لاش کو مقامی ریسکیو ٹیم کے 12 کوہ پیماؤں نے جمعہ 6 مارچ کو اس وقت دریافت کیا جب وہ برف میں دبی ہوئی پہلی لاش کو نیچے لانے کی کوشش میں کھدائی کر رہے تھے۔
قریب ترین شہر'چالچی کمیلا ڈی سیسما' کے میئر، جوآن نوارو نے کہا ہے کہ خراب موسمی حالات کی وجہ سے لاش نیچے لانے کے قابل نہیں ہیں اور دھند کی وجہ سے ریسیکو ٹیم کے لیے کھدائی کرنا ناممکن ہے۔ لہذا، جمعرات کو کام روک دیا گیا تھا۔
تاہم، اگلے روز مزید کھدائی سے یہ پتہ چلا ہے کہ برف میں دبا ہوا منجمد ہاتھ دراصل دوسری لاش کا ہے جو پہلی لاش کو گلے لگائے ہوئے ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ لاشیں جزوی طور پر جلد، پٹھوں کے ٹشوز اور کچھ لباس کے ساتھ حنوط شدہ ملی ہیں۔
میئر نوارو نے امید ظاہر کی کہ حنوط شدہ لاشوں کے لباس سے ان کی شناخت میں مدد مل سکتی ہے۔
میئر نوراو نے امکان ظاہر کیا کہ تیسری لاش کو بھی دریافت کیا جاسکتا ہےکیونکہ نومبر 1959ء میں تین کوہ پیماؤں کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی تھی جو برفانی تودے میں پھنس کر لاپتہ ہو گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک خطرناک پہاڑ ہے جو برف سے ڈھکا ہوا ہے۔ اس میں کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ ٹھوس برف کی ایک نوکیلی ڈھلان ہے۔ لیکن، خیال ہےکہ لاشوں کو حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھی جائے گی۔
اس سلسلے میں مقامی حکام لاشوں کو نیچےلانے کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹر کا استعمال کر سکتے ہیں، جس کے بعد انھیں پوا بیلا ریاست کے عدالتی دفتر میں شناخت کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے لایا جائے گا۔
ذرائع ابلاغ میں اس خبر کے نشر ہونے کے بعد سے اسپین اور جرمنی جیسے درو دراز ملکوں سے لاپتہ ہونے والے کوہ پیماؤں کے خاندان اپنے پیاروں کی تلاش میں میکسیکو حکام سے رابطہ کر رہے ہیں۔
اخبار ’الیونیورسل‘ نے 1959ء کی مہم جو ٹیم کی زندہ بچ جانے والے 78 سالہ کوہ پیما لوئی اسپینوزا کا انٹرویو لیا ہے جن کا کہنا تھا کہ وہ بھی اس برفانی تودے کی لپیٹ میں آنے کے بعد برف کے اندر دب گئے تھے۔ لیکن، وہ خود کو برف سے باہر کھود کر نکالنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
کوہ پیما لوئی نے بتایا کہ برفانی تودہ اس وقت گرنا شروع ہوا جب مہم جو ٹیم دو میٹر چوڑی دراڑ کو پار کرنے کی کوشش کر رہی تھی جو چوٹی سے چند سو کلو میٹر پر ہے۔ اس حادثے کے بعد تمام کوہ پیما ہمت ہار چکے تھے۔ لیکن، طوفان تھمنے کے بعد پتہ چلا کہ ہم میں سے تین لوگ لاپتہ تھے جن میں ہمارے مہم کا گائیڈ بھی شامل تھا۔
انھوں نے یقین ظاہر کیا ہے کہ برف میں دبی ہوئی پہلی لاش مہم کی گائیڈ انریکے گارسیا کی ہوسکتی ہے یہ اس کا سر لگتا ہے، کیونکہ اس کےچہرے پر گال کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھی۔
یہ پہاڑ سائٹ 'لالٹیپٹل آتش فشاں' کے طور پر جانا جاتا ہے اسے افریقہ کی بلند ترین چوٹی ماوٴنٹ کیلی منجارو کے بعد دوسرا بڑا آتش فشاں پہاڑ کہا جاتا ہےجو کوہ پیماؤں میں بہت مقبول ہے۔
پہاڑوں پر برفانی تودوں میں دبنے والی دہائیوں پرانی لاشوں کے معاملات پہلے بھی کئی بار سامنے آئے ہیں، منجمد اور لاشوں کو حنوط شدہ لاشوں کی طرح محفوظ رکھتا ہے۔