پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت کو تجارت کے لیے پسندیدہ ترین ملک یا ایم ایف این کا درجہ دینے کی جانب پیش رفت جاری ہے اور اس ضمن میں وزارت تجارت تمام فریقوں بشمول نجی شعبے سے بھی رابطوں میں ہے۔
جمعرات کو ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے بتایا کہ وزارت تجارت نے ملک کی کاروباری اور تاجر برادری کے ساتھ ان دنوں صلاح و مشوروں کا عمل شروع کر رکھا ہے جس کا مقصد ان اشیاء کی فہرست کی تیاری ہے جن کی بھارت کے ساتھ تجارت نہیں کی جا سکے گی۔
اُنھوں نے توقع ظاہر کی کہ یہ عمل اکتوبر تک مکمل ہو سکے گا جس کے بعد بھارت کو تجارت کے لیے انتہائی پسندیدہ ملک یعنی ایم ایف این کا درجہ دینے کے حکومت پاکستان کے فیصلے پر مزید پیش رفت ممکن ہو گی۔ لیکن انھوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ بھارت کو ایم ایف این کا درجہ دینے کے فیصلے سے پاکستان پیچھے ہٹ رہا ہے۔
’’ہم اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں، اس عمل کو اکتوبر میں مکمل ہونا تھا یہ ہی ٹائم فریم وزارت تجارت کو دیا گیا ہے کہ وہ مزید پیش رفت کے لیے سفارشات تیار کریں۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے درمیان اس وقت تقریباً 2000 اشیاء کی تجارت ہو رہی ہے جسے مثبت اشیاء کی فہرست یا پازیٹیو لسٹ کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن نئی دہلی کے ساتھ حالیہ مذاکرات میں مثبت پیش رفت اور بھارت کو ایم ایف این کا درجہ دینے کے اصولی فیصلے کے اعلان کے بعد پاکستان کا کہنا ہے کہ اب ایک منفی فہرست یا نیگٹیو لسٹ ترتیب دی جا رہی ہے جس میں درج اشیاء کے علاوہ باقی تمام شعبوں میں بھارت کے ساتھ تجارت کی اجازت ہو گی۔
بھارت کو پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کے اعلان کے بعد پاکستان میں مختلف حلقوں بالخصوص مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس فیصلے کی مخالفت کی گئی ہے۔
بظاہر انھی خدشات کے پیش نظر پارلیمان کی کشمیر کمیٹی کے ایک اجلاس کو رواں ہفتے وزارت تجارت نے اس معاملے پر بریفنگ دی۔ کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بریفنگ کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلواسطہ طور پر بھارت کو ایم ایف این کا درجہ دینے کی یہ کہہ کرحمایت کی کہ اس اقدام سے کشمیر پر پاکستان کا موقف تبدیل نہیں ہوگا۔
’’انڈیا پاکستان کے ساتھ دبئی کے راستے سے تجارت ہوتی ہے۔ اگر ہم (اس تجارت کو) براہ راست کر لیں اور اوپن کر دیں تو اس سے (کیا) ہمارا کشمیر کا موقف تبدیل ہو جائے گا، وہ تو غیر مبہم موقف ہے‘‘۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان کی وزارت تجارت نے بھارتی وزیرتجارت آنند شرما کو فروری میں دورہ اسلام آباد کی باضابطہ دعوت دے رکھی ہے اور ان کی پاکستان آمد کے موقع پر دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے تین معاہدوں پر بھی دستخط کیے جانے کا امکان ہے۔