وادی کشمیر میں جون کا مہینہ بڑی چہل پہل کا وقت ہوتا ہے ۔ یہاں سری نگر میں ایک سال پہلے کے ہنگامے ختم ہو چکے ہیں، اور حالات معمول پر آ گئے ہیں۔ بھارت کی شدید گرمی سے فرار ہو کر، سیاح جوق در جوق اس علاقے کے پہاڑوں اور جھیلوں کا لطف اٹھانے آ رہے ہیں۔ کشمیری تاجروں کے لیئے یہ چار پیسے کمانے کا وقت ہے۔ کشمیری تاجر بھی اپنامعیار ِ زندگی بہتر بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کی پریشانی یہ ہے کہ سرحد پار کی مارکیٹ تک ان کی رسائی ممکن نہیں ہے۔
پاکستان اور بھارت دونوں کشمیر کے پورے علاقے کے دعویدار ہیں اور اس تنازع پر دو جنگیں لڑ چکےہیں۔ ان دونوں ملکوں کے پاس نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے باز رہےہیں۔
2008 میں اعتماد پیدا کرنے کے اقدام کے طور پر، دونوں ملکوں نے کشمیر کے متنازع علاقے میں، لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف تجارتی سامان بردار ٹرک بھیجنے شروع کر دیے۔ لیکن اسی سال نومبر میں ممبئی پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد، جن کا الزام بھارت نے پاکستان پر لگایا، دونوں ملکوں کے درمیان تمام شعبوں میں تعاون اچانک ختم ہو گیا۔ لائن آف کنٹرول پر تجارت ٹھپ ہو گئی، کیوں کہ اب ہفتے میں صرف دو دن، گاڑیاں لائن آف کنٹرول کے آر پار جا سکتی تھیں۔
پھل اور سبزیاں جو پہلے لائن آف کنٹرول کے دوسری طرف بک جاتی تھیں اور تاجروں کے لیے آمدنی کا ذریعہ تھیں، اب اکثر گل سڑ کر کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دی جانے لگیں۔
اب ایک بار پھر بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت شروع کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ہلال احمد ترکی لائن آف کنٹرول کے تاجروں کی ٹریڈ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ وقت آ گیا ہے کہ کشمیر کے اندر تجارت کی راہ میں تمام بڑی بڑی رکاوٹیں دور کر دی جائیں۔
وہ کہتے ہیں کشمیری بر آمد کنندگان کی سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ اچانک بعض اشیاء کی تجارت ممنوع قرار دے دی جاتی ہے۔ مثلا پاکستان نے سرخ مرچ کی در آمد پر پابندی لگا دی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بھارتی کشمیر میں تاجروں کے گودام سرخ مرچ سے بھر گئے ہیں۔ جو تاجر یہ آئیٹم پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو بر آمد کرنے والے تھے، انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
چونکہ آمنے سامنے بیٹھ کر میٹنگ کرنے کی اجازت نہیں ہے، اور صرف ایک طرف سے کبھی کبھی فون کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، اس لیے اکثر سودے اندازوں کی بنا پر طے کیے جاتے ہیں۔کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان تجارت مال کے بدلے مال کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تجارتی سودوں کو بنکوں کے ذریعے طے کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے ۔
شکیل قلندر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں محکمہ تجارت میں اعلیٰ افسر تھے اور اب خود اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ بھارت کی حکومت یا پاکستان کی حکومت کواس تجارت میں بنکاری کے نظام کو متعارف کرانے میں کیا تکلف ہے۔ دونوں ملکوں کی حکومتوں کو صرف یہ کرنا ہے کہ دونوں ملکوں کی کرنسیوں کی خرید و فروخت کو قانونی قرار دے دینا ہے ۔
موجودہ ضابطوں کے تحت ، بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں صرف 21 اشیاء کی تجارت کی اجازت ہے ۔ ان میں بیشتر گھریلو دستکاریاں اورچند زرعی اشیاء شامل ہیں۔ قلندر کہتے ہیں کہ وقت آ گیا ہے کہ یہ تمام رکاوٹیں ہٹا دی جائیں۔’’ہم چاہتے ہیں کشمیر کے دونوں حصوں میں پیدا ہونے والی یا تیار کی جانے والی تمام چیزوں کی تجارت کی اجازت ہو۔ یہ بڑی سیدھی سی بات ہے۔ان میں خدمات کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ اعتماد کی تعمیر کے اس اقدام میں عام لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ ہو، تو اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ ایک دوسرے سے رابطہ کریں گے۔ ا س طرح کشیدگی کم ہو گی۔ بلکہ کشیدگی کم ہوئی ہے۔‘‘
قلندر اور کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان تجارت کی حمایت کرنےوالے دوسرے لوگوں کے لیے تجارتی رکاوٹیں دور کرنے کی سب سے اہم دلیل، اعداد و شمار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں سالانہ تجارت کی مالیت دو ارب ڈالر سے کم نہیں ہوگی۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کشمیر کے دونوں حصے اس طرح ایک دوسرے پر انحصار کرنے لگیں تو یہ کشمیر میں پائیدار امن کے قیام کا سب سے اہم ذریعہ ثابت ہو گا۔