صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابي مہم کے دوران دهشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کو شکست دینے کے منصوبوں کے بارے میں پوچھے گے سوال کا جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکہ کے دشمنوں کو اپنے اداروں کے متعلق کوئی اشارہ دینا نہیں چاہتے۔
گذشتہ جمعے کے روز صدر ٹرمپ نے اپنے فوجی جنرلز کو ایک تفصیلی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے کہا اور ایک ایکزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس میں کابینہ کے ارکان اور جوائنٹ چیفس آف سٹاف کو کہا گیا کہ وہ 30 دنوں کے اندر ایک ایسا منصوبہ پیش کریں جس پر فوری طور پر عمل کیا جا سکے۔
سوال یہ ہے کہ آیا مسٹر ٹرمپ کے ذہن میں پہلے سے کوئی منصوبہ موجود تھا؟
ہو سکتا ہے کہ ان کے ذہن میں فوجی تکنیکی تفصیلات نہ ہوں لیکن اگست میں اپنی ایک تقریر کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ وہ اسلامی انتہا پسندی کے خلاف مؤثر طور پر لڑیں گے اور امیگریشن میں سخت تر ضابطے متعارف کرائیں گے اور امریکہ کو مشرق وسطی میں حکومتوں کی تبدیلیوں کے عمل سے دور لے جائیں گے اور روس کے ساتھ مل کر اسلامک اسٹیٹ اور القاعدہ اور دوسرے جہادیوں کو شکست دیں گے۔
فوج کے سابق چیف آف سٹاف جنرل ریمنڈ اوڈیرنو سمیت کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اسلامک اسٹیٹ اور القاعدہ کے ساتھ لڑائیوں میں فوجی قوت کی نسبت انٹیلی جینس پر مشتمل کارروائیوں کی ضرورت ہوگی۔
پچھلے سال جنرل اوڈیرنو نے مسٹر ٹرمپ کی جانب سے شديد بمباری کی تجویز پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوجی قوت کی کچھ حدود و قیود ہیں۔ ان کی جانب سے پیش کی جانے والی تجویز صرف محدود مدت کے فوائد دے سکتی ہے نہ کہ دیر پا۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وزیر دفاع میٹس کو جوائنٹ چیفس کی جانب سے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف مہم تیز کرنے سے متعلق کئی تجاویز پیش کی گئیں جو تکنیکی أمور پر مرکوز تھیں۔ عہدے دار کہتے ہیں کہ ان تجاویز میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کو شام اور عراق کے درمیان نقل وحرکت کرنے سے روکنے اور رقہ سے باہر دھکیلنے کی منصوبہ بندی شامل ہے۔
پچھلے مہینے برسلز میں نیٹو کے اجلاس میں چیئر میں آف دی چیفس آف سٹاف میرین کور کے جنرل جوزف ڈن فورڈ نے کہا تھا کہ دهشت گرد گروپس کے خلاف لڑنے کے لیے انٹیلی جینس کے تبادلے کے نظام کو بہتر بنانے کی اہمیت کلیدی ہے۔
فوجی عہدے دار أوباما انتظامیہ کے تحت ڈرون حملوں اور فضائی بمباری پر عائد پابندیاں نرم کرنے کے حق میں ہیں اور پنٹاگان چاہتا ہے کہ چھاپوں اور دیگر کارروائیوں میں استعمال ہونے والی خصوصي فورسز کے ارکان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔