تاہم، اس بات کے آثار نظر نہیں آتے آیا اسرائیلی اور فلسطینی قیادتیں ایک عرصے سے جاری اپنے اپنے مؤقف میں تبدیلی پر آمادہ ہیں
واشنگٹن —
امریکہ اور برطانیہ کے اعلیٰ ترین سفارت کاروں نے اسرائیل فلسطین امن مذاکرات کی بحالی کے لیے مشترکہ کوشش کے سلسلے میں یروشلم اور رملہ کا دورہ کیا اور فریقین کے راہنماؤں سے ملاقات کی۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے جمعرات کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں کے بعد اس امید کا اظہار کیا کہ مذاکرات کے اجرا میں پیش رفت ہوگی۔ بعد میں، آج ہی کے دِن، دونوں سفارت کاروں نے فلسطینی صدر محمود عباس سے رملہ میں الگ الگ ملاقات کی۔
تاہم، اس بات کے آثار نظر نہیں آئے آیا اسرائیلی اور فلسطینی قیادتیں ایک عرصے سے جاری اپنے اپنے مؤقف میں تبدیلی لانے کے لیے آمادہ ہیں، جس کے باعث 2008ء کے اواخر سے امن مذاکرات کافی حد تک سرد مہری کا شکار رہے ہیں۔
پھر یہ کہ کیری اور ہیگ کی طرف سے کوئی اعلان سامنے نہیں آیا جس سے مغرب کی طرف سے پیش کردہ خیالات کا علم ہو جن کے باعث فریقین ایک دوسرے کے قریب آتے ہوئے دکھائی دیں۔
یروشلم میں، کیری نے مسٹر نیتن یاہو کی ’سنجیدگی‘ اور ’ذاتی ولولے‘ کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیلٴفلسطین امن مذاکرات کے لیے کسی راستے کی تلاش میں ہیں۔
کیری نے یہ بھی کہا کہ اُنھیں ایک طویل عرصے سے تعطل کے شکار امن عمل سے متعلق ’شبہات‘ اور ’بیزاری‘ کا پورا ادراک ہے۔
مسٹر نیتن یاہو نے کیری کو بتایا کہ اسرائیل ہر صورت مذاکرات کی بحالی کا خواہاں ہے، اور اس امید کا اظہار کیا کہ فلسطینی بھی یہی چاہتے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ، ’ جب نیت صاف ہو، تو منزل آسان ہوجایا کرتی ہے‘۔
مسٹر عباس نے کہا کہ جب تک اسرائیل مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے مقبوضہ کنارے پر یہودیوں کی بستیاں تعمیر کرنا بند نہیں کرتا، تب تک وہ اسرائیل کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع نہیں کرسکتے۔ فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ علاقے اُن کی آزاد ریاست کا حصہ ہوں گے۔
مسٹر نیتن یاہو نے کہا ہے کہ بستیوں کی تعمیر جاری رہے گی اور یہ کہ وہ بغیر شرائط کے بات چیت پر تیار ہیں۔
رملہ میں مسٹر عباس کے ساتھ علیحدہ ملاقاتوں کے بعد، کیری اور ہیگ میں سے کسی نے بھی اخبار نویسوں کو کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ ادھر مسٹر عباس کی فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے بھی کوئی بات سامنے نہیں آئی آیا کس بات پر گفتگو ہوئی۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے جمعرات کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں کے بعد اس امید کا اظہار کیا کہ مذاکرات کے اجرا میں پیش رفت ہوگی۔ بعد میں، آج ہی کے دِن، دونوں سفارت کاروں نے فلسطینی صدر محمود عباس سے رملہ میں الگ الگ ملاقات کی۔
تاہم، اس بات کے آثار نظر نہیں آئے آیا اسرائیلی اور فلسطینی قیادتیں ایک عرصے سے جاری اپنے اپنے مؤقف میں تبدیلی لانے کے لیے آمادہ ہیں، جس کے باعث 2008ء کے اواخر سے امن مذاکرات کافی حد تک سرد مہری کا شکار رہے ہیں۔
پھر یہ کہ کیری اور ہیگ کی طرف سے کوئی اعلان سامنے نہیں آیا جس سے مغرب کی طرف سے پیش کردہ خیالات کا علم ہو جن کے باعث فریقین ایک دوسرے کے قریب آتے ہوئے دکھائی دیں۔
یروشلم میں، کیری نے مسٹر نیتن یاہو کی ’سنجیدگی‘ اور ’ذاتی ولولے‘ کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیلٴفلسطین امن مذاکرات کے لیے کسی راستے کی تلاش میں ہیں۔
کیری نے یہ بھی کہا کہ اُنھیں ایک طویل عرصے سے تعطل کے شکار امن عمل سے متعلق ’شبہات‘ اور ’بیزاری‘ کا پورا ادراک ہے۔
مسٹر نیتن یاہو نے کیری کو بتایا کہ اسرائیل ہر صورت مذاکرات کی بحالی کا خواہاں ہے، اور اس امید کا اظہار کیا کہ فلسطینی بھی یہی چاہتے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ، ’ جب نیت صاف ہو، تو منزل آسان ہوجایا کرتی ہے‘۔
مسٹر عباس نے کہا کہ جب تک اسرائیل مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے مقبوضہ کنارے پر یہودیوں کی بستیاں تعمیر کرنا بند نہیں کرتا، تب تک وہ اسرائیل کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع نہیں کرسکتے۔ فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ علاقے اُن کی آزاد ریاست کا حصہ ہوں گے۔
مسٹر نیتن یاہو نے کہا ہے کہ بستیوں کی تعمیر جاری رہے گی اور یہ کہ وہ بغیر شرائط کے بات چیت پر تیار ہیں۔
رملہ میں مسٹر عباس کے ساتھ علیحدہ ملاقاتوں کے بعد، کیری اور ہیگ میں سے کسی نے بھی اخبار نویسوں کو کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ ادھر مسٹر عباس کی فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے بھی کوئی بات سامنے نہیں آئی آیا کس بات پر گفتگو ہوئی۔