تارکین وطن کی یورپ آمد، ہنگری نے اپنی سرحدی نگرانی بڑھا دی

Ausria

ادھر پولینڈ کی وزیراعظم ایوا کوپاکز نے کہا ہے کہ ان کا ملک معاشی تارکین وطن کو قبول کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا لیکن ایسے لوگ جو جنگوں سے راہ فرار اختیار کر کے پناہ کی تلاش میں انھیں قبول کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔

مشرق وسطیٰ اور افریقی ملکوں سے یورپ کا رخ کرنے والے پناہ کے متلاشیوں کو جہاں ایک طرف مختلف ملکوں میں آباد کرنے کا سلسلہ جاری وہیں، ان کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بعض ممالک تشویش میں مبتلا ہو کر مختلف اقدامات بھی کر رہے ہیں۔

ہنگری کے راستے ہزاروں پناہ گزین مغربی یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہنگری کی پولیس نے بدھ کو دیر گئے بتایا کہ اس نے 3321 تارکین وطن کو حراست میں لیا ہے جب کہ گزشتہ جمعرات کو اس 3313 لوگوں کو بھی تحویل لیا گیا تھا۔

صرف رواں ماہ کے دوران اب تک سربیا جانے کے خواہشمند تارکین وطن کی تعداد 22000 کے لگ بھگ ہوگئی ہے جو ہنگری پہنچے ہیں۔

فوج اور پولیس نے ہنگری کی جنوبی سرحدوں پر تارکین وطن کو کنٹرول کرنے کے لیے مشقیں شروع کر دی ہیں اور یہاں اہلکاروں کو تعینات بھی کیا جا رہا ہے۔ سربیا کی سرحد کے ساتھ ہنگری پہلے ہی خار دار باڑ لگا چکا ہے۔

ادھر پولینڈ کی وزیراعظم ایوا کوپاکز نے کہا ہے کہ ان کا ملک معاشی تارکین وطن کو قبول کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن ایسے لوگ جو جنگوں سے راہ فرار اختیار کر کے پناہ کی تلاش میں انھیں قبول کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔

جمعرات کو ایک اقتصادی فورم کے موقع پر صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ " اپنی جان بچا کر بھاگنے والے تارکین وطن کو قبول کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔"

انھوں نے کہا کہ پولینڈ کو یورپ کے باقی ملکوں کی طرح یہ ذمہ داری بانٹنے چاہیے اور ان کے بقول اگر ڈونباس میں لڑائی بڑھتی ہے تو یوکرین سے بھی پناہ گزینوں کی پولینڈ آنے کی توقع ہے۔

دریں اثنا ڈنمارک کو جرمنی سے ملانے والی موٹر وے کو جمعرات کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ اسے ایک روز قبل اس وقت بند کر دیا گیا تھا جب سیکڑوں پناہ گزینوں جن میں بچے بھی شامل تھے، اس پر پیدل ہی سفر شروع کر دیا تھا۔

تاہم ابھی تک ریل سروس کو محدود ہی رکھا گیا ہے۔

ڈنمارک کی پولیس کا کہنا ہے کہ اتوار سے بدھ تک ان کے ہاں تین ہزار تارکین وطن پہنچے ہیں۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ شام اور بحرانوں کے شکار دیگر ممالک سے فرار ہونے مزید تارکین وطن کو پناہ دینے کے لیے تیار ہے۔

تاہم یہ سلسلہ کب اور کتنے لوگوں کے لیے ہوگا یہ تاحال واضح نہیں کیا گیا۔