اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین اینٹونیو گوٹیرس نے کہا ہے کہ تارکین وطن کا بحران اس وطن یورپی یونین میں شامل ممالک کے لیے ’’فیصلہ کن‘‘ مرحلہ ہے۔
اُنھوں نے ایک بیان میں متبنہ کیا کہ منقسم یورپی یونین سے اسمگلروں اور غیر قانونی طور پر لوگوں کو منتقل کرنے والوں کو فائد ہو گا۔
اینٹو گوٹیرس نے کہا یورپی یونین کے رکن ممالک کو اپنے ہاں تقریباً دو لاکھ تارکین وطن کو جگہ دینا ہو گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کو یونان، ہنگری اور اٹلی کی مدد کرنا ہو گی جو اس بحران کی وجہ سے دباؤ میں ہیں۔
اُدھر پولینڈ کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ یورپ کو لاکھوں تارکین وطن کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
گریزگورز شیانا نے ایک نجی ریڈیو پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کو تاریکین وطن کی آمد کی وجہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے نا کہ صرف انھیں مختلف ملکوں میں تقسیم کرنے کی۔
"یہ (تارکین وطن کی) تعداد بہت ہی زیادہ ہے، لہذا ہم اس پر توجہ نہیں دے سکتے۔ میں اصل وجوہات کا مقابلہ کیے بغیر پورے یورپ مں غیر قانونی تارکین وطن کو جگہ تفویض کی جانے کی بات کر رہا ہوں۔"
ان کا کہنا تھا کہ "ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو کیسے روکا بصورت دیگر جلد ہی ہمیں تیس سے چالیس لاکھ معاشی پناہ گزینوں کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔"
افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جنگوں اور دیگر تنازعات کی وجہ سے یورپ کا رخ کر رہے ہیں اور ان کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان نے جمعہ کو سرکاری ریڈیو کو بتایا کہ انھیں مہاجرین سے متعلق یورپی یونین کے قوانین کو نافذ کرتے ہوئے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے
ان کے بقول بوڈا پسٹ کے مشرقی ریلوے اسٹیشن پر موجود تارکین وطن سے بھی اسی قانون کے تحت برتاؤ کرنا ہو گا۔
"ہم ہنگیرینز اگر چاہتے ہیں کہ ہم یورپ میں آزادانہ نقل و حرکت کر سکیں تو ہمیں ہر صورت اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے اور یورپی یونین کے قانون کو بھی لاگو کرنا ہے۔"
اوربان کا کہنا تھا کہ اسٹیشن پر موجود بہت سے تارکین وطن ہنگری میں اپنا اندراج نہیں چاہتے بلکہ جرمنی جانا چاہتے ہیں۔
" لیکن ہنگری انھیں یہاں سے گزرنے نہیں دے گا کیونکہ آسٹریا اپنی سرحد بند کر رہا ہے اور اس سے ہنگری کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اگر جرمنی انھیں ویزہ دیتا ہے تو ہم انھیں جانے دیں گے۔"
جمعرات کو اوربان کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ یورپ آنے والے تارکین وطن کی بڑی تعداد مسلمانوں پر مشتمل ہے جس سے ان کے بقول یورپی براعظم کی عیسائی بنیاد کو خطرہ ہے۔
جرمنی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ہاں قبول کرنے پر آمادگی کا اظہار کر چکا ہے لیکن دیگر یورپی ملک اس پر اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہیں۔