کیا کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ ہر سال کیوں لاکھوں پرندے سردیاں شروع ہوتے ہی برفانی علاقوں سے میدانی خطوں کی طرف پرواز شروع کر دیتے ہیں اور پھر جیسے ہی موسم بدلنا شروع ہوتا ہے، تو ان میں سے وہ خوش قسمت پرندے واپسی کی اڑان بھر لیتے ہیں جو شکاریوں کا نشانہ بننے سے بچ جاتے ہیں۔
اس کا ایک سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ وہ خوراک کی تلاش کے لیے ہزاروں میل کی پرواز کرتے ہیں۔ اپنے منتخب ٹھکانوں پر پہنچنے کے لیے انہیں کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے پرندے پاکستان بھی آتے ہیں اور وہ دریاؤں اور جوہڑوں کے کنارے ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ ان مسافر پرندوں میں کونج بھی شامل ہوتی ہے جو پاکستان کی کئی علاقائی زبانوں کے لوگ گیتوں کا خاص موضوع ہے۔
اب تک یہ ماہرین یہی قیاس کرتے رہے ہیں کہ سائبیریا اور دوسرے برف پوش علاقوں سے پرندے موسم سرما کے آغاز پر خوراک کی تلاش میں ہجرت کرتے ہیں، خاص طور پر اپنے ان بچوں کو پالنے کے لیے سردیوں میں جن کی خوراک کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر نسبتاً معتدل میدانی علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور جب موسم گرم ہونے لگتا ہے تو نئے بچے پیدا کرنے کے لیے اپنے آبائی وطن کی جانب پر پھیلا دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب ہزاروں میل کی کھٹن اور تھکا دینے والی پرواز کے بعد انہیں خوراک مل جاتی ہے تو پھر وہ چند مہینوں کے بعد واپس کیوں چلے جاتے ہیں اور ان جگہوں پر مستقل سکونت کیوں اختیار نہیں کر لیتے جہاں خوراک موجود ہو تی ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاںآج ایسے بہت سے ایسے پرندے اور جانور موجود ہیں، جن کا یہ وطن نہیں ہے۔ وہ دوسرے علاقوں سے نقل مکانی کر کے یہاں آئے تھے ، مگر انہیں یہ علاقے اتنے بھائے کہ انہوں نے واپس جانے کی بجائے مقامی موسمی اور جغرافیائی حالات سے مطابقت پیدا کر لی اور یہی کے ہو رہے۔
لیکن ہزاروں برسوں کی نسل در نسل پروازوں کے باوجود مسافر پرندوں اپنے لیے یہ راستہ کیوں نہیں چن رہے۔یہ سوال بہت عرصے سے سائنس دانوں کے ذہنوں میں کلبلا رہا تھااور وہ اس بارے میں تحقیق کر رہے تھے ، بالآخر وہ اس راز سے پردہ اٹحانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
سائنسی جریدے نیجر اکالوجی اینڈ ایولوشن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ میدانی علاقوں میں مختلف اقسام کے پرندوں کی بہتات ہوتی ہے اور خوراک کا حصول آسان نہیں ہوتا۔ تاہم ہجرت کرنے والے پرندوں کو کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے جب کہ برفانی موسم میں ان کے اپنے آبائی وطن میں کھانے کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا۔
خوراک کے لیے لڑنا جھگڑنا اور زیادہ تگ و دو کرنا غالباً ہجرت کرنے والے پرندوں کے مزاج میں ہوتا، اس لیے موسم بدلنے پر وہ اپنے آبائی وطن واپسی کو ترجیج دیتے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ زولوجی کے سائنس دان مارس سومول جو اس تحقیق کے شریک مصنف بھی ہیں ، کہتے ہیں کہ مسافر پرندے سردیاں ختم ہونے پر گرم علاقوں سے اپنے وطن شمالی نصف کرے کی جانب اس لیے پرواز کر جاتے ہیں کیونکہ وہاں انہیں خوراک کے حاصل کرنے کے لیے مسابقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
ان برفانی اور چٹانی علاقوں میں پرندوں کی نسلیں اور ان کی تعداد بھی میدانی علاقوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس لحاظ سے گرمیوں میں انہیں اپنے وطن میں خوراک کی وافر مقدار دستیاب ہوتی ہے۔
یہ تازہ تحقیق اس قدیم سوال کا جواب فراہم کرتی ہے کہ برف پوش شمالی نصف کرے میں رہنے والے پرندوں نے ہزاروں برسوں سے خانہ بدوشی کیوں اختیار کر رکھی ہے۔