رسائی کے لنکس

بلوچستان: قیمتی پرندوں کا شکار کرنے والے تین باز برآمد


برآمد کئے گئے فالکن پرندوں میں سے ایک
برآمد کئے گئے فالکن پرندوں میں سے ایک

’’یہ تینوں پرندے ایک عر ب شیخ کے ہیں جو یہاں تلور کے شکار کے لئے لائے جارہے تھے۔‘‘

بلوچستان میں حکام نے قیمتی پرندوں کے شکار کے لئے استعمال کئے جانے والے تین شکاری پرندے قبضے میں لے کر دو افراد کو گرفتار کرلیا۔ یہ پرندے متحدہ عر ب امارات سے تلور اور دیگر پرندوں کے شکار کےلئے بلوچستان لائے جارہے تھے۔

محکمہ جنگلا ت اور جنگلی حیات کے صوبائی ڈپٹی کنززویٹر نیاز کاکڑ نے وائس آف امر یکہ سے گفتگو کے دوران بتایا کہ شکاری پرندے (FALCON) کو شارجہ سے ایک پرواز کے ذریعے کو ئٹہ لایا جارہا تھا۔ ہوائی اڈ ے پر مسافروں کے ایک ڈبے کو دیکھ کر جب چیک کیا گیا تو اس میں تین فالکن پرندے تھے ۔ ڈبے کے مالکان سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تووہ کو ئی تسلی بخش جواب نہ دے پائے اور نہ ہی کو ئی دستاویز پیش کر سکے جس پر تینوں پر ندوں کو تحویل میں لے لیاگیا اور ان پر ندوں کو لانے والے دونوں افراد کو بھی حراست میں لیا گیاجن کے خلاف مقدمہ عدالت میں پیش کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حراست میں لئے گئے افراد نے بتایا ہے کہ یہ تینوں پرندے ایک عر ب شیخ کے ہیں جو یہاں تلور کے شکار کے لئے لائے جارہے تھے ۔ان میں سے ہر ایک فالکن کی قیمتی ایک کر وڑ روپے سے زائد ہے اور ان کے پیروں پر شناخت کے لئے ٹر یکرز بھی لگے ہوئے ہیں ۔

ان تینوں پر ندوں میں ایک جرمن ، ایک برطانوی اور ایک اسپین میں پائے جانے والی نسلوں کے ہیں ۔ ان کو روزانہ مچھلی ،کبوتر اور دیگر پرندے خوراک کے طور پر کھلائے جاتے ہیں ۔ ان میں سے ایک پرندے کا روزانہ خرچہ پانچ ہزار سے زیادہ ہے ۔

بلوچستان میں گزشتہ سال بھی خلجی ممالک سے لائے جانے والے سات قیمتی پرندے نوشکی کے قریب تحویل میں لے کر چار افراد کو حراست میں لیا گیا تھا ۔ لیکن بعد میں عر ب شیخ کی طرف سے قانونی کاغذات فراہم کرنے کے بعد پرندے اُن کے حوالے کرکے اُن کو لانے والوں کو بھی رہا کردیا گیاتھا۔

نیاز کاکڑ کا کہنا ہے تحویل میں لئے جانے والے غیر قانونی قیمتی پرندوں کو عدالت کے حکم کے مطابق چھوڑ دیا جاتا ہے یا قومی پارکوں میں جمع کر ا دیا جاتا ہے ۔

بلوچستان میں 5 201 میں صوبائی اسمبلی نے جنگلات اور جنگلی حیات کے غیر قانونی شکار پر پابندی کا قانون پاس کیا تھا جس کے بعد سے حکام اب تک بیالیس لاکھ روپے جر مانہ وصول کر چکے ہیں ۔

بلوچستان میں ہر سال وسطی ایشائی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد تلور مو سم سر ما سے پہلے ضلع ژوب کے علاقوں سے گزر تے اور موسم بہار کے آغاز پر واپس وسطی ایشائی ریاستوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔

سال 2016 میں سپریم کورٹ نے تلور کے شکار پر مکمل پابندی عائد کی تھی ۔ تاہم وفاقی حکومت کی طرف سے اس فیصلے کے خلاف اپیل پر اعلیٰ عدالت کے پانچ رکنی بنچ نے اس پابندی کو کالعدم قراردے دیتے ہوئے محدود پیمانے پر اس پرندے کے شکار کی اجازت دے دی ہے۔

گزشتہ برس ایک سعودی شہزادے اور اس کے ساتھ آئے افراد نے تین ہفتوں کے دوران بلوچستان میں 2,100 تلور شکار کیے جو اس سال جاری کیے گئے 16 لائسنسوں کی شکار کی حد سے بہت زیادہ تھے۔ ایک لائسنس کے تحت دس دنوں میں صرف 100 پرندے شکار کیے جا سکتے ہیں۔

اس پرندے کو عالمی سطح پر معدومی کے خطرے سے دوچار پرندوں کی فہرست میں شامل کیا جا چکا ہے اور ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ان کی تعداد دس ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG