کابل کے ایک اہم فوجی اسپتال پر مسلح حملہ آوروں کے حملے میں کم از کم پندرہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔ طالبان ترجمان نے حملے کا الزام داعش خراسان پر عائد کیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے حوالے سے بتایا ہے کہ حملے میں تین خواتین، ایک بچہ، اور ہسپتال کی سیکورٹی پر مامور تین طالبان اہلکار ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ پانچ حملہ آوروں کی ہلاکت کی اطلاعات بھی ہیں۔ اس حملے کو طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے داعش کا سب سے ہلاکت خیز حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق،ہسپتال کے سیکیورٹی اہلکاروں نے حملہ آوروں پرصرف پندرہ منٹ میں قابو پا لیا اور "کوئی ہلاکت ہسپتال کے اندر نہیں ہوئی"۔
طالبان ترجمان کے مطابق، داعش کی جانب سے چار سو بستروں کے اس ہسپتال کے طبی عملے اور مریضوں کو ہدف بنانے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن یہ حملہ ناکام بنا دیا گیا۔
ترجمان کے مطابق، حملے کو پسپا کرنے کے لئے طالبان سپیشل فورسز تعینات کی گئی تھیں، جنہوں نے ہسپتال کی تلاشی لی ۔ اس کارروائی میں ایک ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیا گیا۔
محکمہ صحت کے حکام کے مطابق، کابل کے سردار داود خان ہسپتال پر حملے میں سولہ افراد زخمی ہوئے ہیں، طالبان ترجمان کے مطابق زخمیوں میں پانچ طالبان جنگجو بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل ایک طالبان عہدیدار نے بتایا گیا تھا کہ حملہ آوروں کی تعداد چھ تھی، جن میں سے دو کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
سرکاری 'افغان نیوز ایجنسی' نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ چھاپے میں ''داعش'' ملوث ہے۔ خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں دولت اسلامیہ کا داعش خراسان کا مقامی طور پر مانوس نام لیا۔ خبر میں مزید تفصیل نہیں بتائی گئی۔
طالبان حکومت کے ایک ترجمان بلال کریمی نے کہا ہے کہ حملے کے آغاز پر افغان دارالحکومت کے وزیر اکبر خان علاقے میں اسپتال کے داخلی دروازے پر ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ جبکہ دوسرا بم دھماکہ اسپتال کے اندر ہوا۔ انھوں نے کہا کہ مزید تفصیل بعد میں بتائی جائے گی۔
بتایا گیا تھا کہ طالبان فورسز نے سردار محمد داؤد خان اسپتال کے اندر حملہ آوروں کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ فوری طور پر ہلاکتوں کی تفصیل معلوم نہیں بتائی گئی تھی اور نہ ہی کسی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
دو مہینے قبل طالبان کی جانب سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالے جانے کے بعد افغانستان میں مبینہ طور پر داعش خراسان کے حملوں میں تیزی آئی ہے۔ ان واقعات میں خاص طور پر طالبان جنگجوؤں یا شیعہ اقلیتی برادری کے ارکان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جن واقعات میں سینکڑوں افراد ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔
دولت اسلامیہ یا داعش کے جنگجوؤں نے 2017ء میں ایک فوجی اسپتال پر دھاوا بولا تھا جس دوران دو درجن سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ طالبان بھی ماضی میں اس تنصیب پر حملہ کرچکے ہیں، جب کہ مغربی ملکوں کی حمایت یافتہ افغان حکومت اور امریکی قیادت والی غیر ملکی فوج کے خلاف مہلک سرکش حملے جاری تھے۔