حالیہ ایک ہفتے کے دوران ذرائع ابلاغ میں اس طرح کی خبریں گردش میں رہی ہیں کہ پاکستان کی فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ واشنگٹن میں کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی سے مؤثر طور پر نمٹنے کے لئے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنا چاہیے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور فوج کی جانب سے واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اپنی مرضی اورسہولت کے مطابق کارروائی کرے گا۔ اگر یہ کارروائی ہوتی ہے تو اس کے مقاصد کیا ہونگے اور اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں۔
مغربی ممالک اور خاص طور پر امریکہ ایک عرصے سے پاکستان پر دباؤ ڈالتا آیا ہے کہ وہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کو کچلنے کے لئے کارروائی کرے۔ مگر پاکستانی حکام ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ اس کی افواج اور سیکیورٹی ادارے اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق کوئی کارروائی کریں گے۔ کچھ دنوں سے یہ خبریں زور پکڑرہی ہیں کہ پاکستان وہاں کوئی کارروائی کرنے والا ہے۔ دفاعی امور کے امریکی تجزیہ کار ڈاکٹر سب سٹین گورکا کہتے ہیں اس ممکنہ آپریشن کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے علاوہ بھی بہت سے عسکریت پسند نیم عسکریت پسند گروہ وہاں ڈیرے جمائے ہوئے ہیں جن میں طالبان کے کئی دھڑے شامل ہیں۔ اس وقت یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کا مقصد کیا ہوگا لیکن مقاصد کئی ہو سکتے ہیں۔ اس کا مقصد ان دہشت گرد گروہوں کو تباہ کرنا ہو سکتا ہے جن کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ وہ ٕ امریکہ، مغربی ممالک یا پاکستان کے ساتھ کبھی مذاکرات نہیں کریں گے ۔ ساتھ ساتھ ہی یہ بھی ہوسکتا ہے ان عناصر پر دباؤ ڈالا جائے جو صلح اور بات چیت کرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔
مگر کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں کوئی بھر پور کارروائی نہیں کرے گا اور اصل مسلہ فوجی کارروائی کے بعد وہاں بحالی اور مقامی سطح پر انتظامی نظام قائم کرنا ہوگا۔ امریکن پراگریس کی تجزیہ کار کیرولین ویڈہامز کا خیال ہے کہ پاکستان شمالی وزیر ستان میں فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔
http://www.youtube.com/embed/zCxSvMoroZU
ان کا کہنا ہے کہ میرا خیال نہیں کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کوئی جارحانہ فوجی کارروائی کرے گا۔ ان کے پاس وہاں فوجی کارروائی کی صلاحیت تو موجود ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ فوجی کارروائی کے بعد آپ کو تعمیرنو، علاقے کی بحالی اور آبادی کی امداد کے لئے سویلین حکام کی جانب سے ایک لائحہ عمل چاہئے۔ پاکستانی حکومت کے لئے تعمیر نو اور مقامی حکومتی اداروں کا مؤثر طور پر نظام چلانا ہی مشکل مرحلہ ہوگا۔
امریکی حکام کو توقع ہے کہ اگر پاکستانی فوج کارروائی کرتی ہے تو اس کا نشانہ حقانی نیٹ ورک بھی ہوگا جو ایک عرصے سے اس علاقے میں موجود ہے۔ ذرائع ابلاغ کی کچھ اطلاعات کے مطابق حقانی گروہ کے اہم راہنما کسی ممکنہ آپریشن کے پیش نظر وہاں سے کہیں اور منتقل ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر سب سٹین کہتے ہیں کہ اگر یہ درست ہے تو بھی وہاں فوجی کارروائی کا جواز بنتا ہے۔
ان کا کہناہے کہ ہمیں اس طرح کی غیر مصدقہ رپورٹس پر مکمل طور پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ اگر حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے راہنما اور افراد وہاں سے دوسرے علاقوں میں فرار ہو بھی جاتے ہیں تو یہ ایسا علاقہ ہے جہاں پر پاکستانی حکومت کی عمل داری نہیں ہے اور اسلام آباد کے کنٹرول میں نہیں اور جہاں کئی دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جو نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کو بھی غیر مستحکم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کی غیر موجودگی کے باوجود فوجی کارروائی کا جواز بنتا ہے۔
پاکستانی فوج قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کئی کارروائیاں کر چکی ہے اور اس کے ہزاروں فوجی اب بھی مختلف علاقوٕ ں میں تعینات ہیں۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں دہشت گرد گروہ پاکستان میں شہری آبادیوں ،سرکاری دفاتر اور اہلکاروں کو نشانہ بنا تے آئے ہیں جس میں اب تک ہزاروں افراد اپنی جانیں کھو چکے ہیں۔