سپریم کورٹ کے پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے واضح احکامات کے باوجود 14 مئی کو الیکشن کے انعقاد کی صورتِ حال واضح نہیں ہے۔اس صورتِ حال میں چیف جسٹس اور انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے فیصلہ دینے والے دو ججوں سے فوج کے دو اعلیٰ افسران نے ملاقات کرکے بریفنگ دی ہے۔
ملک کے طاقت ور ترین خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم اور فوج کے ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل اویس دستگیر نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے سپریم کورٹ کی عمارت میں چیف جسٹس چیمبر میں ملاقات کی جہاں فوجی افسران نے مختلف معاملات پر بریفنگ دی۔اس دوران اٹارنی جنرل عثمان منصور بھی موجود تھے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو بریفنگ کے دوران فوجی افسران نے ملک کی موجودہ سکیورٹی صورت حال، دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں اور انتخابات میں فورسز کی دستیابی سمیت مختلف امور سے آگاہ کیا۔ یہ ملاقات لگ بھگ تین سے چار گھنٹے تک جاری رہی۔
اطلاعات کے مطابق یہ ملاقات اچانک نہیں تھی بلکہ پہلے سے طے شدہ تھی۔ اسی سلسلے میں سپریم کورٹ میں ڈیوٹی پر مامور افسران نے ان فوجی افسران کا استقبال کیا اور چیف جسٹس کے چیمبر تک پہنچایا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سپریم کورٹ آمد پر فوج کے دونوں اعلیٰ حکام کے ساتھ کے اسٹاف کے مختلف فوجی افسران بھی تھے۔ البتہ ان دیگر فوجی افسران کو چیف جسٹس کے چیمبر تک رسائی نہیں دی گئی ۔
دوسری جانب وزارتِ دفاع کے لیگل ڈپارٹمنٹ کے افسران نے اٹارنی جنرل سے ان کے آفس میں بھی اہم ملاقات کی جس کے بعد یہ سپریم کورٹ میں ایک ہی روز میں دوسری اہم اور بڑی ملاقات ہے۔
فوجی افسران کی سپریم کورٹ کے ججوں سے ملاقات پر مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر ہیں اور ملک میں سیاسی تناؤ کے ساتھ ساتھ عدلیہ میں اختلافات کے دوران اگر اسٹیبلشمنٹ کوئی بھی کردار ادا کرسکتی ہے تو ملک کے لیے بہتر ہوگا۔
سپریم کورٹ نے پنجاب میں عام انتخابات کے حوالے سے چار اپریل کو حکم دیا تھا کہ وفاقی حکومت کو 21 ارب روپے جاری کرے۔ وہیں وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن کی ضرورت کے مطابق سیکیورٹی فورسز کی فراہمی ممکن بنانے کی ہدایت کی تھی۔
حکومت نے 16 اپریل تک الیکشن کمیشن میں مکمل جامع پلان جمع کرانا تھا تاہم حکومت مؤقف اپنا رہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری مختلف آپریشنز کی وجہ سے فورسز دستیاب نہیں ہیں۔
فوجی افسران کی سپریم کورٹ میں یہ ملاقاتیں بھی 16 اپریل ہی کو ہوئی تھیں۔
SEE ALSO: حکومت کا انکار؛ سپریم کورٹ کا اسٹیٹ بینک کو الیکشن کے لیے فنڈز جاری کرنے کا حکماس بارے میں پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کسی بھی سرکاری افسر کو عدالت میں طلب کر سکتے ہیں اور یہ ملاقات بھی ان کی مرضی کے مطابق ہی ہوئی ہوگی۔
حسن رضا پاشا کا مزید کہنا تھا کہ ایسی ملاقاتوں کو اگرچہ اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن اس وقت ملک جس مشکل صورتِ حال میں ہے ایسے میں ان ملاقاتوں سے اگر کوئی بہتری آتی ہے تو ٹھیک ہے۔
ملک کی سیاسی بے یقینی کی جانب اشارہ کرے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب مسائل کا حل ایک ہی ادارہ نکال سکتا تھا اور وہ سپریم کورٹ ہی تھا لیکن یہ ادارہ گزشتہ کچھ عرصے سے خود بہت زیادہ متنازع ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اب جو بھی ادارہ اس مشکل صورتِ حال کے خاتمے میں مدد کرے گا وہی سب سے اچھا ہے۔
سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے حسن رضا پاشا نے کہا کہ تمام جماعتیں لچک کا مظاہرہ کریں گی تو ہی حالات بہتر ہوں گے۔
ججز کے درمیان اختلافات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ عام طور پر جوڈیشل سال کے آغاز پر فل کورٹ اجلاس منعقد ہوتا تھا جس میں تمام جج مل کر آئندہ کا لائحہ عمل تشکیل دیتے تھے لیکن گزشتہ تین سال سے یہ اجلاس منعقد نہیں ہورہا۔ اگر اب فل بینچ نہیں بھی بناتے تو کم سے کم فل کورٹ اجلاس ضرور بلایا جائے۔
اکستان فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل نعیم خالد لودھی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسی ملاقاتیں آئیڈیل جمہوریت میں تو نہیں ہوتیں لیکن ملک میں جو حالات ہیں ان میں ملک میں آئیڈیل جمہوریت ہی نہیں ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ تقسیم نظر آرہی ہے۔ حکومت ڈنکے کی چوٹ پر سپریم کورٹ کے احکامات کو نظر انداز کر رہی ہے۔
SEE ALSO: قومی اسمبلی: الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیےرقم فراہم نہ کرنے کی تحریک منظورنعیم خالد لودھی نے کہا کہ یہ ملاقات پہلی بار نہیں ہو رہی بلکہ ماضی میں چھپ کر ایسی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔
انہوں نے اپنا اندازہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ شاید انہوں نے چیف جسٹس سے کچھ وقت لیا ہے۔ آج مکمل خاموشی رہی ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی کوئی نتیجہ سامنے آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ایک عرصے سے پاکستان کی سیاست میں شامل رہی ہے۔ سب سیاسی جماعتیں اور رہنما اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ اتنی جلدی وہ خود کو الگ نہیں کرسکتے۔
پاکستان کی سیاست میں فوج کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ گھڑی کے ایک پرزے کی طرح ہو چکی ہے جس کے نکل جانے سے گھڑی رکنے کا امکان ہے۔
لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ ڈرائیونگ سیٹ پر اسٹیبلشمنٹ ہے یا نہیں، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ اسٹیئر نگ ویل پر ایک ہاتھ ابھی بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔
سینئر وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اکرام چوہدری کہتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل در آمد سے انکار کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ دونوں اطراف ایک دوسرے کے آمنے سامنے آکر کھڑے ہوگئے ہیں جس سے نظر آ رہا ہے کہ شاید ان کے درمیان کوئی مصالحت کی کوشش کی جا رہی ہے۔
SEE ALSO: پارلیمنٹ جانے پر جسٹس فائز عیسٰی کی وضاحتاکرام چوہدری نے کہا کہ آئین میں جو لکھا ہے وہ لکھا ہوا ہے۔ اس سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس بریفنگ سے پہلے الیکشن کمیشن، وزارتِ خزانہ کے حکام نے اپنی رائے دی جب کہ یہ سب ایگزیگٹو کا حصہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ بھی ایگزیگٹو کا حصہ ہے اور ایسی ملاقات نہیں ہونی چاہیے تھی۔ ایسی ملاقاتیں ہونا قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے لیے مثبت اشارہ نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسی ملاقاتوں سے مستقبل کے لیے راستے کھل جاتے ہیں جو آئندہ آنے والے وقت میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے لیے مشکلات کا باعث بنیں گے۔
لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی نے کہا کہ اس وقت جو صورتِ حال ہے اس میں تمام سیاسی جماعتوں کا مل کر ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھنا ہی واحد حل ہے۔
پنجاب کے انتخابات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر آئین میں لکھے 90 دن کے وقت کو بڑھانا ہے تو اس میں ضروری ہے کہ تحریکِ انصاف کے ارکان کو اسمبلی میں آنے دیا جائے۔ عمران خان کے خلاف ہر قسم کی کارروائیوں کو بند کیا جائے اور حالات کو معمول پر لایا جائے تاکہ سیاسی بات چیت ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کے وقت میں اضافے کے لیے آئینی ترمیم کریں اور ملک کو اس مشکل صورتِ حال سے نکالیں۔