سپریم کورٹ آف پاکستان نے شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے فیصلے پر حکمِ امتناع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اس معاملے پر سماعت جمعے تک ملتوی کر دی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رُکنی بینچ نے سردار لطیف کھوسہ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے نو مئی کے واقعات کے بعد فوجی اور سول حراست میں موجود افراد کی فہرست طلب کر لی۔
اس سے قبل جمعرات کو جب نو رُکنی بینچ نے سماعت شروع کی تو نامزد چیف جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود نے بینچ سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ۔ بینچ ٹوٹنے کے بعد چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کا سات رُکنی نیا لارجر بینچ تشکیل دے دیا ۔
کیس کی سماعت شروع کی تو سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک ہر بینچ غیر قانونی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بینچ سے الگ ہو رہے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ اُنہوں نے آئین اور قانون کے تحت چلنے کا حلف اٹھایا ہے۔ میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس سردار طارق مسعود نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اتفاق کیا۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ دیکھتے ہیں کہ اب ان درخواستوں کا کیا کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے دو ججوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کی بنیاد پر اعتراض کیا ہے۔ لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ اٹارنی جنرل نے اس کیس میں وقت لیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا پتا اس میں’ اسٹے‘ ختم ہو۔ہوسکتا ہے اس کیس میں مخلوقِ خدا کے حق میں فیصلہ ہو۔اس کا کچھ کرتے ہیں۔ہم نے بھی یہ بینچ اپنے آئین کے تحت حلف کے مطابق بنایا ہے۔
چیف جسٹس نے بدھ کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر نو رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بننے والے بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینئر قانون دان اعتزاز احسن اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے خلاف مقدمات کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ہے کیا؟
پاکستان کی پارلیمان نے اپریل میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی منظوری دی تھی۔
بل کے مطابق سینئر ترین تین ججوں کی کمیٹی از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کرے گی۔ یہ کمیٹی چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ہو گی۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی آئینی تشریح کے لیے کمیٹی پانچ رُکنی بینچ تشکیل دے گی۔
آرٹیکل 184 کے تحت کوئی بھی معاملہ پہلے ججوں کی کمیٹی کے سامنے آئے گا۔
بل کے تحت سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے خلاف اپیل کا حق بھی ہوگا۔ کسی بھی سوموٹو نوٹس پر 30 دن میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔
بل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سوموٹو کے خلاف اپیل کو دوہفتوں میں سنا جائے گا۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کا اطلاق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں پر ہوگا۔
عدالتی اصلاحات کے ترمیمی بل کے ذریعے چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو بھی محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں کے بعد اس پر عمل درآمد روک دیا تھا۔ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیرِِ سماعت ہے۔