طالبان حکام کے ساتھ خواتین کی تعلیم اور کام کرنے کےحق پر جاری تنازع اورعطیہ دہندگان کی جانب سے فنڈنگ میں کمی کے باعث اقوام متحدہ نے افغانستان کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد کی اپنی درخواست میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی کمی کر دی ہے جس کے نتیجے میں امدادی ادارے بھی لاکھوں افغان باشندوں کی معاونت میں کمی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جبکہ انہیں اشد ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ نے اس سال مارچ میں افغانستان کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد سے متعلق ایک منصوبہ" ہیومنٹیرین ریسپانس پلان" یا ،ایچ آر پی ، شروع کیا تھا، جس کے لیے اس سال عطیات دہندگان سے 2 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ انتہائی ضرورت مند افغان باشندوں کی مدد کے لیے4 ارب 60 کروڑ ڈالر کے عطیات کی اپیل کی تھی۔
اس سے قبل دسمبر میں طالبان نے افغان خواتین پر اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ کام کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ طالبان عہدے داروں نے کہا تھا کہ ،خواتین کو مذہبی اور ثقافتی وجوہ کی بناء پر غیرمعینہ مدت کے لیے تعلیم اور کام سے روک دیا گیا ہے۔
کئی غیر ملکی اداروں نے خواتین کو کام پر جانے سے روکنے کےرد عمل میں اپنی امدادی کارروائیاں معطل کر دیں تھیں ۔
انسانی ہمدری کے امدادی منصوبے یا ایچ پی آر کے وسط سال کے جائزے کے نتیجے میں مطلوبہ فنڈنگ اور اس سے مستفید ہونے والوں کی تعداد میں اہم تبدیلیاں ہوئی ہیں۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ “اس نظر ثانی شدہ منصوبے کا مقصد جون اور دسمبر 2023 کے درمیان 2 کروڑ افغان باشندوں کو کئی شعبوں میں امداد فراہم کرنا ہے جس کےلیے نئی فنڈنگ میں دو ارب 26 کروڑ ڈالرز درکار ہوں گے۔
نتیجتاً، نظرثانی شدہ فنڈنگ کی اپیل اب کل 3 ارب 20 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہے، جس میں سے 94 کروڑ 20 لاکھ ڈالر (پچھلے سال سے 85 کروڑ ڈالر کے ساتھ) بھی شامل ہیں جو اس سال جنوری اور مئی کے درمیان 17 کروڑ 30 لاکھ لوگوں کی مدد پر پہلے ہی خرچ کیے جا چکے ہیں۔
افغانستان میں غیر سرکاری تنظیموں کے ایک "کوآرڈینیشن پلیٹ فارم" ACBAR کے ڈائریکٹر رچرڈ ہوفمین نے وائس آف امریکہ کو بتایا، "اپیل کے صرف ایک حصے کا مثبت جواب دیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ پروگرام کو محدود کرنا پڑا۔"
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے منگل کو کہا تھا، کہ طالبان کی پابندیاں افغانستان میں انسانی ہمدردی کے بحران میں ایک کردار ادا کر رہی ہیں اور "نتائج کی ذمہ داری طالبان قیادت پرعائد ہوتی ہے" ۔
عطیہ دہندگان کی فنڈنگ میں کمی
اقوام متحدہ کے مطابق 20 جون تک ایچ آر پی کی درکار فنڈنگ کےلیے عطیہ دہندگان نے 15 فیصد کی کمی کے ساتھ46 کروڑ 75 لاکھ ڈالر فراہم کرنے کے وعدے کیے ہیں ۔
مارچ میں افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ روزا اوتن بائیفا نے خبردار کیا تھا کہ "اگر خواتین کو کام کرنے کی اجازت نہ دی گئی توافغانستان کے لیے فنڈز میں کمی ہونے کا خدشہ ہے۔"
طالبان کی جانب سے خواتین پر اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے پر پابندی سے قبل کئی مغربی عطیہ دہندگان ،جنہوں نے 2022 میں افغانستان کو انسانی ہمدردی کے سلسلے میں 2 ارب ڈالر سے زیادہ امداد دی تھی، اب اس امداد میں کمی کرتے نظر آ رہے ہیں۔
امریکہ نے گزشتہ سال انسانی امداد کی اپیل کے جواب میں ایک ارب20 کروڑ ڈالر سے زیادہ امداد دی تھی، جب کہ اس سال جون تک اس نے 74 کروڑ ڈالر دیے ہیں۔
مغربی عطیات دہندگان کا کہنا ہےکہ طالبان کی جانب سے بدسلوکی اور اختیار کی جانے والی مداخلتی پالیسیاں انسانی ہمدردی کی کارروائیوں میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے اپنے ایک تحریری بیان میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "امریکی حکومت موجودہ انسانی اور معاشی بحران میں افغان عوام کی مدد کےلیے بدستور پرعزم ہے،جسے طالبان نے پیدا کیا ہے، اور اپنے امتیازی حکم کے ذریعے این جی اوز کے لیے اس میں اضافہ کیا ہے۔"
گزشتہ ہفتے، امریکہ نے شام کے لیے 92 کروڑ کی اضافی انسانی امداد کا اعلان کیا تھا، جس سے سال 2023 میں شام اور خطے کے لیے اس کی کل امداد ایک ارب 10 کروڑ ڈالر اور اس ملک کے 12 سالہ بحران کے آغاز سے اب تک تقریباً 16 ارب 90 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نے شام اور افغانستان کے لیے امریکی امداد میں تفاوت کے بارے میں سوال کا جواب نہیں دیا۔
تاہم طالبان، عطیہ دہندگان پر افغانستان کے لیے امداد کو سیاسی رنگ دینے کا الزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ طالبان حکومت نے امدادی ایجنسیوں کو کام کرنے کے لیے محفوظ ماحول فراہم کیا ہے۔
ACBAR کے ہوفمین کہتے ہیں کہ "میرے خیال میں یہ کہنا مناسب ہے کہ“یہ [طالبان] حکومت کے فیصلوں اور اقدامات کے نتائج ہیں۔
ہوفمین نے کہا کہ جب میں سرکاری عہدے د اروں سے ملتا ہوں تو انہوں نے سب سے پہلے جس چیز کا ذکر کیا وہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس معاونت پر شکر گزار ہیں جو این جی اوز افغانستان لاتی ہیں اور میں واضح طور پر یہ کہتا ہوں کہ اگر این جی اوز کی خواتین ورکرز اپنے مرد ہم منصبوں کے ساتھ کام کر سکیں تو ہم اس امداد کو مزید موثر طریقے اور مزید ماہرانہ انداز میں پہنچا سکتے ہیں۔
ضروریات برقرار ہیں۔
فنڈنگ میں کمی کی وجہ سے عالمی ادارہ خوراک ( ڈبلیو ایف پی) کو گزشتہ دو ماہ میں پہلے ہی 14 لاکھ بچوں اورماؤں سمیت جنہیں غذائیت کی قلت کے خطرات لاحق ہیں، 80 لاکھ افغان شہریوں کے لیے انتہائی ضروری امداد میں کمی کرنی پڑی۔ "
ڈبلیو ایف پی کے ایک ترجمان نے اپنے تحریری بیان میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "80 لاکھ غریب افغان لوگوں کے لیے 60 دنوں سے کم عرصے میں امداد ختم کرنا ان 10 لاکھ سے زیادہ خاندانوں کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ ہے جو پہلے ہی اپنی روزمرہ کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں
ادارے کا کہنا ہے کہ اسے ملک بھر کے لاکھوں گھرانوں تک زندگی بچانے والی امداد پہنچانے کے لیے سال کے اگلے نصف حصے میں 90 کروڑڈالر کی ضرورت ہے۔امدادی ایجنسیاں صحت، پناہ گاہوں اور تعلیم جیسے دوسرے اہم شعبوں میں کٹوتیوں کے بارے میں بھی خبردار کر رہی ہیں۔
افغانستان میں کام کرنے والی ایک بین الاقوامی این جی او، سیو دی چلڈرن، نے پیر کے روز اپنے ایک بیان میں کہا، "فنڈنگ کی فوری فراہمی کے بغیر، ملک کو قحط جیسی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔"
بیان میں مزید کہا گیا کہ " وراثت میں ملنے والے عشروں کے تنازعات، خشک سالی کا مسلسل تیسرا سال، بین الاقوامی برادری کی جانب سے ترقیاتی امداد کی معطلی، اگست 2021 سے پابندیوں کا نفاذ اور بگڑتی ہوئی معیشت، افغان عوام کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے" ۔