افغانستان میں نجی ملیشیا رکھنے والے نامور کمانڈروں نے طالبان جنگجوؤں کے خلاف نئی صف بندی شروع کر دی ہے۔ وہ افغان فورسز کے ساتھ مل کر طالبان کے قبضہ شدہ علاقوں کو چھڑانے کی حکمتِ عملی تیار کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق افغان صوبے ہیرات سے تعلق رکھنے والے تاجک کمانڈر اسماعیل خان نے اپنے جنگجوؤں کو جمع کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ طالبان کے خلاف اپنے مضبوط قلعوں کا دفاع کیا جا سکے۔
اسماعیل خان کو 'ہیرات کا شیر' کہا جاتا ہے۔ وہ ماضی میں طالبان کے خلاف بننے والے شمالی اتحاد کے اہم کمانڈر تھے جن کی ملیشیا نے 2001 میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے لیے امریکہ کی مدد کی تھی۔ طالبان نے 2009 میں اسماعیل خان پر ایک حملہ بھی کیا تھا جس میں وہ محفوظ رہے تھے۔
مقامی حکام کے مطابق کئی طالبان مخالف کمانڈرز ملک کے شمالی اور مغربی سرحدی علاقوں کے دفاع کے لیے افغان فورسز کی معاونت کر رہے ہیں۔
یہ کمانڈرز ایسے موقع پر جمع ہو رہے ہیں جب طالبان ملک کی اہم گزرگاہوں اور چوکیوں پر تیزی سے قبضے کر رہے ہیں اور وہ اب تک 150 سے زائد اضلاع پر اپنا تسلط قائم کر چکے ہیں۔
طالبان نے جمعرات کو ہیرات صوبے کے ایک اہم ضلعے پر قبضہ کیا ہے جہاں لاکھوں شیعہ اقلیتی ہزارہ برادری کے لوگ آباد ہیں۔
طالبان اور افغان حکام کی جانب سے فوری طور پر ہیرات میں طالبان کے قبضے اور وہاں جاری لڑائی کے بارے میں معلومات جاری نہیں کی گئیں۔
البتہ طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے اپنے ایک ٹوئٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ملک کی تمام سرحدیں اب ان کے کنٹرول میں ہیں۔ البتہ یہ سرحدیں کھلی رہیں گی اور وہاں معمول کے مطابق سرگرمیاں جاری رہیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم یقین دلاتے ہیں کہ کسی سفارت کار، سفارت خانوں، قونصلیٹ، این جی اوز اور ان کے عملے کو ہم نشانہ نہیں بنائیں گے۔
دوسری جانب امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بھی اعلان کیا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے تمام فوجیوں کی واپسی 31 اگست تک مکمل ہو جائے گی۔ البتہ کابل میں 650 فوجی امریکی سفارت خانے کی سیکیورٹی پر مامور رہیں گے۔
امریکہ اور غیر ملکی افواج کی افغانستان سے واپسی ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب طالبان ملک کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو چکے ہیں اور کئی اضلاع میں افغان فورسز اور جنگجوؤں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔
امریکی صدر نے کہا ہے کہ افغان عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔ وہ افغان جنگ کو امریکہ کی اگلی نسل کے حوالے نہیں کریں گے۔