رسائی کے لنکس

افغان فورسز اور طالبان کے درمیان صوبہ بادغیس اور بدخشاں میں لڑائی، جنگجوؤں کی پیش قدمی


افغان حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے بعض علاقے طالبان کے قبضے سے چھڑا لیے ہیں۔
افغان حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے بعض علاقے طالبان کے قبضے سے چھڑا لیے ہیں۔

افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے جہاں جنگجو فوجی اڈوں، سرحدی چوکیوں اور شہروں پر قبضے کر رہے ہیں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق افغان فورسز اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان صوبہ بادغیس اور بدخشاں میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ طالبان نے بدھ کو صوبہ بادغیس کے صوبائی ہیڈ کوارٹر 'قلعہ نو' کو پہلی مرتبہ نشانہ بناتے ہوئے انٹیلی جنس ایجنسی کے دفتر اور جیل پر حملہ کر کے درجنوں قیدی رہا کرائے جس میں طالبان جنگجو بھی شامل ہیں۔

یکم مئی سے اب تک طالبان 150 سے زیادہ اضلاع پر قابض ہو چکے ہیں اور اطلاعات کے مطابق اب وہ صوبائی دارالحکومتوں کی جانب گامزن ہیں۔

افغان حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے بعض علاقے طالبان کے قبضے سے چھڑا لیے ہیں تاہم ان کی تعداد بہت کم ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے بات کرتے ہوئے صوبہ بادغیس کے گورنر حسام الدین شمس نے بتایا کہ طالبان نے بدھ کی علی الصباح 'قلعہ نو' پر حملہ کیا جس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ طالبان شہر میں ضرور داخل ہوئے ہیں لیکن انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

بادغیس کی صوبائی کونسل کے سربراہ عبدالعزیز بیک کا کہنا ہے کہ افغان فورسز نے طالبان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی بھی کر دی ہے۔

خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ طالبان ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے سرگرداں ہیں۔ البتہ امریکہ کی جانب سے تواتر سے کہا جا رہا ہے کہ اگر طالبان قبضہ کر کے تسلط قائم کریں گے تو دنیا اسے تسلیم نہیں کرے گی۔

خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ طالبان ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے سرگرداں ہیں۔
خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ طالبان ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے سرگرداں ہیں۔

افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ طالبان کے عزائم مکمل طور پر واضح ہیں۔ وہ نہ صرف افغانستان کے علاقے بلکہ نظام کا دوبارہ سے کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس وقت طالبان کا "مورال اور جذبہ بہت بلند ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ چند ماہ میں حکومت کی بساط لپیٹ دیں گے۔"

سمیع یوسف زئی کے بقول، "طالبان لڑائی تو کر سکتے ہیں لیکن حکومتی باگ ڈور سنبھالنا ان کے بس کی بات نہیں۔ کیوں کہ ان کے ذہنوں میں اسلامی نظام کا وہی پرانا خاکہ ہے جس کے تحت ان کی تمام تر توانائی لوگوں کو سزائیں دینے پر مرکوز ہے۔"

افغان امور کے ماہر کا مزید کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اگر طالبان دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو ان کی حکومت گزشتہ طرز حکومت سے مختلف ہو گی۔ کیوں کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق انسانی حقوق، دہشت گردی پر کنٹرول اور عالمی برادری کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کی پاسداری طالبان کے بس کی بات نہیں۔

اطلاعات کے مطابق افغانستان کے شمال میں 100 سے زائد اضلاع کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب طالبان نے صوبائی ہیڈ کوارٹروں کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ جس کے باعث خوف کی فضا میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

شبیر احمد احمدی کا تعلق صوبہ بدخشاں کے ضلعی ہیڈ کوارٹر فیض آباد سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی لوگ طالبان کی آمد سے خوف زدہ ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ علاقے میں بازار کھلے ہیں اور افغان فوج کے تازہ دم دستے معمول سے ہٹ کر گشت کر رہے ہیں۔

احمدی کے بقول انہیں ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ جہاں بھی طالبان نے کنٹرول حاصل کیا ہے وہاں انہوں نے خواتین کا محرم کے بغیر گھر سے نہ نکلنا، پردے کی سختی سے پابندی کرنا اور حجاموں کو داڑھی منڈوانے سے اجتناب برتنے کا کہا ہے۔

طالبان کے پے در پے افغان علاقوں پر قبضے کے بعد افغان نیشنل آرمی کی تربیت اور قابلیت پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ بیشتر علاقے ایسے ہیں جہاں افغان فورسز نے لڑائی کے بغیر ہی علاقے طالبان کے حوالے کر دیے۔

سمیع یوسف زئی کا کہنہ ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ اور اتحادی افواج کے اچانک انخلا کے فیصلے کا افغان فورسز پر نفسیاتی اثر ہوا ہے جس کے منفی اثرات تیزی سے سامنے آ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغان اسپیشل فورسز بہت مضبوط ہیں جس نے طالبان کا ہر سطح پر ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ ان کے بقول طالبان کبھی بھی اسپیشل فورسز پر حاوی نہیں ہوئے اور افغان حکومت نے ہمیشہ اس فورس کو بطور 'ٹربل شوٹر' استعمال کیا ہے۔

اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG