آسٹریلیا کے زہریلے حیوانات؛ ’ان کا ڈنک لگنے کے بعد آپ مرنے کی خواہش کریں گے‘

دنیا کی سب سے زہریلی مچھلی قرار دی جانے والی اسٹون فش۔

  • آسٹریلیا میں دنیا کی سب سے زہریلی مچھلی اسٹون فش بھی پائی جاتی ہے۔
  • ماہرین کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا میں دنیا کے سب سے زیادہ زہریلے جانور پائے جاتے ہیں۔
  • باکس جیلی فش میں پایا جانے والا زہر 10 منٹ کے اندر کسی کی جان لے سکتا ہے۔

فرض کریں کہ ایک ہاتھی آپ کے سینے پر بیٹھا ہو، آپ سانس نہ لے پارہے ہوں اور درد کی شدت آپ کی برداشت سے اس طرح باہر ہو جائے کہ آپ مرنے کی خواہش کرنے لگیں۔

آپ کی یہ حالت اس وقت ہو سکتی ہے جب ایک چھوٹی سے ارکاندجی جیلی فش نے آپ کو کاٹ لیا ہو۔

آسٹریلیا کی جیمز کک یونیورسٹی میں زہریلے مواد کے ماہر (ٹوکسی کولوجسٹ) جیمی سیمور کا کہنا ہے کہ اس زہر سے ممکنہ طور پر آپ کی موت نہیں ہو گی۔ لیکن آپ چاہیں گے کہ آپ مرجائیں۔

وہ اس لیے بھی اس بارے میں بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں 11 مرتبہ یہ مچھلی ڈنک مار چکی ہے۔

سیمور کا کام بہت خطرناک ہے۔ وہ زہر کا تریاق تیار کرنے کے لیے زہریلے سمندری حیوانات کا زہر نکال کر اس پر تحقیق کرتے ہیں۔

کوئنزلینڈ میں ایک آہنی شیڈ کے اندر ٹینک میں درجنوں ارکاندجی جیلی فش رکھی ہوئی ہیں جن کا حجم تل جتنا ہے۔

جیمی سیمور زہریلے جانوروں پر تحقیق کرکے زہر کا توڑ تیار کرتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی ایک اور ٹینک میں دنیا کی سب سے زہریلی مچھلی اسٹون فش بھی رکھی ہوئی ہے۔ یہ مچھلی اتنی زہریلی ہے کہ اس کے جلد پر موجود کانٹے اگر کسی کی جلد میں داخل ہو جائے تو اس قدر شدید تکلیف ہوگی کہ متاثر شخص بے ہوش ہو جائے گا اور اس کے جگہ کے آس پاس کی جلد سیاہ پڑ جائے گی۔

اگرچہ آسٹریلیا میں اسٹون فش کے زہر سے موت کا کوئی کیس ریکارڈ نہیں ہوا تاہم اس کا زہر اتنا طاقت ور ہے کہ اس سے انسانوں کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ سیمور بھی اس کے ڈنک کے بعد محفوظ رہے تھے۔

سیمور کی ٹیم لوگوں کی جانیں محفوظ بنانے کے لیے آسٹریلیا کے مہلک ترین سمندری جانوروں پر تحقیق کر رہی ہے۔

'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا دنیا کا زہریلا ترین ملک ہے۔ اس بارے میں امریکیوں کو بتائیں تو وہ پوچھتے ہیں کہ تم پیدا ہوتے ہی مرنے سے کیسے بچ گئے۔

سیمور مختلف ٹینکوں کے گرد گھومتے ہوئے ایک ٹینک جیلی فش کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے زہر سے صرف 10 منٹ میں کسی بھی شخص کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

ڈنک اور زخم

آسٹریلیا میں متعدد زہریلے جانور ہونے کے باجود وہاں ان کے باعث اموات بہت کم ہوتی ہیں۔

ٹینک میں موجود ارکاندجی جیلی فش۔

حالیہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2001 سے 2017 کے درمیان آسٹریلیا میں جانوروں کی وجہ سے ہر سال اوسطاً 32 اموات ہوئیں جن میں سے زیادہ تر گھوڑوں اور گائے کی وجہ سے ہوئیں۔

آسٹریلیا میں 1883 کے بعد مرتب کیے گئے ریکارڈ کے مطابق ارکاندجی جیلی فش اور بکس جیلی فش سے مجموعی طور پر 70 اموات ہوئی ہیں۔

اس کے مقابلے میں صرف 2022 کے ایک سال کے دوران گاڑیوں کے حادثات، شراب نوشی اور منشیات سے 4700 افراد کی جان گئی۔

سیمور کہتے ہیں کہ آسٹریلیا میں کسی جانور کا کاٹنا یا ڈنک مارنا ایک عام سی بات ہو گی۔ لیکن اس کے نتیجے میں موت ہونے کا امکان بہت ہی کم ہو گا۔

وہ اپنے ادارے میں صرف زہر کا توڑ کرنے والے تریاق تیار کرنے کے لیے ان سے زہر حاصل کرتے ہیں۔

اینٹی وینم یا تریاق تیار کرنے کے بعد آسٹریلیا اور دیگر ممالک کے اسپتالوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بدلتے موسموں کی وجہ سے زہر کا توڑ کرنے والی دواؤں یا تریاق کی ضرورت بھی بڑھ جائے گی۔

مثلاً آسٹریلیا میں 60 برس قبل ارکاندجی جیلی فش کے کاٹنے کے زیادہ واقعات نومبر اور دسمبر میں ہوتے تھے۔ سمندر کے درجۂ حرارت گرم رہنے کی وجہ سے اب مارچ تک ان یہ جیلی فش ساحلوں کے قریب ہو سکتی ہے۔

سیمور کے طلبہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں تبدیلی سے حیوانات کے زہر کی شدت بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے کئی مرتبہ اس کے توڑ کے لیے بنایا گیا تریاق کام نہیں کرتا۔

کئی تحقیقی جائزوں سے ثابت ہوا ہے کہ ڈنک دار جانوروں میں پائے جانے والے زہر ہڈیوں اور اعصاب کی کئی بیماروں کا مؤثر علاج ثابت ہو سکتے ہیں۔

لیکن سیمور کا کہنا ہے کہ اس پر کام کرنے کے لیے جتنی تحقیق درکار ہے اس پر مطولبہ سرمایہ کاری نہیں کی جا رہی ہے۔

اس خبر کا مواد ’اے ایف پی‘ سے لیا گیا ہے۔