سال 2013 کے اختتام پر رومانیہ اور بلغاریہ کے 29 ملین یعنی 2 کروڑ 90 لاکھ افراد کو برطانیہ میں بغیر ویزا داخل ہونے اور بغیر ورک پرمٹ کام کرنے کا حق حاصل ہو جائیگا۔
برطانیہ میں رومانیہ اور بلغاریہ سے آنے والے لاکھوں متوقع تارکینِ وطن کےمسئلے نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے کیوں کہ دسمبر 2013ء کے بعد رومانیہ اور بلغاریہ کے شہریوں کو برطانیہ میں بغیر کسی پابندی کے رہنے اور کام کرنے کاحق حاصل ہو جائےگا۔
یورپی یونین کے معاہدے کی ایک اہم شق ٖFreedom of movement)) کے تحت رکن ممالک کے شہری آپس میں آزادانہ نقل وحرکت کرنے کا نہ صرف حق رکھتے ہیں، بلکہ رکن ممالک میں تجارت، مواصلات، آمدورفت، امیگریشن، روزگار اور سکونت جیسی سہولیات حاصل کرنے کے بھی اہل ہیں۔
اقتصادی بدحالی کا شکار مشرقی یورپی ممالک رومانیہ اور بلغاریہ نے سنہ 2007میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی تو ان پر یورپی یونین کے معاہدے کی شق (نقل و حرکت کی آزادی) پر سات سال کی عارضی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
سال 2013 کے اختتام پر رومانیہ اور بلغاریہ کے 29 ملین یعنی 2 کروڑ 90 لاکھ عام افراد کو برطانیہ میں ویزا کی پابندی کے بغیر داخل ہونے اور ورک پرمٹ کے بغیر کام کرنے کا حق حاصل ہو جائے گا۔
یورپی یونین (یورپی ممالک کا سیاسی اور معاشی اتحاد) کو یورپ کے ملکوں نے مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے ء1993 میں تشکیل دیا تھا۔
یونین کے معاہدے پر خطے کے 27 مملک نے دستخط کر رکھے ہیں۔ مشترکہ تجارت میں سہولت پیدا کرنے کے لیے ان ممالک میں سے 17 میں ایک ہی کرنسی ' یورو' کا استعمال کیا جاتا ہے۔
'یورو' استعمال نہ کرنے والوں میں برطانیہ بھی شامل ہے جو 'پاؤنڈ' استعمال کرتا ہے۔
برطانیہ کے سیاسی حلقوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ برطانیہ اس قسم کا تجربہ پہلے بھی کر چکا ہے جب سنہ 2004 میں یورپی یونین میں شامل ہونے والے آٹھ ممالک میں سے پولینڈ اور چیکو سلواکیہ کے باسیوں کی بڑی تعداد نے برطانیہ ہجرت کی تھی۔ یہ ہجرت برطانوی معیشت کے لیے کچھ خوشگوار ثابت نہیں ہوئی تھی اور اس سے خاص طور پر افرادی قوت کے شعبے پر بہت برا اثر پڑا تھا۔
برطانیہ کے ایک سیاسی گروپ ' امیگریشن واچ' نے آئندہ سال رومانیہ اور بلغاریہ سے آنے والے افراد کی تعداد کے بارے میں ایک رپورٹ شایع کی ہے جس کے مطابق ہر سال رومانیہ اور بلغاریہ کے 50,000 ہزار کے لگ بھگ شہریوں کے برطانیہ میں داخل ہونے کا امکان ہے اور یہ تعداد پانچ سالوں میں بڑھ کر 250,000 لاکھ سالانہ تک پہنچ جائے گی۔
برطانوی حکومت کی جانب سے اگرچہ اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے مگر سرکاری سطح پر برطانیہ میں داخل ہونے والے تارکینِ وطن کی تعداد کے بارے میں کسی قسم کی پیشن گوئی کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔
ادھربرطانیہ میں تعینات رومانیہ کے سفیر نے اس رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اعداد و شمار حقیقت پر مبنی نہیں۔ ان کے مطابق آئندہ سال رومانیہ سے برطانیہ ہجرت کرنے والوں کی تعداد کم از کم 10 ہزار سے 13 ہزار کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔
ہوم آفس ( برطانوی امیگریشن) نے بھی متوقع تارکین وطن کی صحیح تعداد کے بارے میں اگرچہ کسی حتمی رائے کا اظہار نہیں کیا ہے مگر ان کے نزدیک یہ تعداد 10 ہزار سالانہ سے زائد ہو سکتی ہے۔
ہوم سکریٹری تھریسا مئی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ برطانیہ سال 2013 میں رومانیہ اور بلغاریہ کے شہریوں کی یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک کی جانب نقل مکانی پر عائد پابندی کی میعاد کو اپنے طور پر مزید نہیں بڑھا سکتا ہے۔
تھریسا مے کے بقول برطانیہ کی معیشت مضبوط ہے اوریہ ایک ٖفلاحی ریاست ہے لہذا حکومت کی جانب سے عوام کو دی جانے والی مفت سہولیات تارکینِ وطن کے لیے کشش کا باعث ہیں۔
حال ہی میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ وہ تارکینِ وطن کو دی جانے والی حکومتی سہولیات کو کم کرنا چاہتے ہیں لیکن یورپی یونین کے قانون کی پاسداری کرتے ہوئے ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
برطانوی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے انھیں برطانوی عوام کو بھی ان فوائد سے محروم کرنا پڑے گا کیونکہ وہ یورپین اور برطانوی شہریوں کے درمیان تفریق نہیں کرنا چاہتے۔
امیگریشن قوانین کے ماہرین کی رائے میں اس پابندی کے خاتمے کے بعد 'امیگریشن' کا مسئلہ کھل کر سامنے آئے گا اور برطانیہ کی لیبر مارکیٹ پر برے اثرات مرتب کرے گا جہاں پہلے ہی بے روزگار برطانوی نوجوانوں کی تعداد بڑھ کر 10 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔
محکمہ مردم شماری کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ برطانیہ میں رہایش پذیر رومانیہ کے شہریوں کی تعداد 6 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
رومانیہ اور بلغاریہ شہریوں کو یورپی یونین کی بعض شرایط پوری کرنے کے بعد یونین کے 16 ممالک میں آزادانہ نقل وحرکت کا حق پہلے ہی حاصل ہو چکا ہے جب کہ بقیہ نو مملک کے لیے انہیں یہ حق یکم جنوری 2014 سے حاصل ہو جائیگا۔
رومانیہ اور بلغاریہ مشرقی یورپ کے انتہائی غریب ملک ہیں جہاں ایک گھنٹے کام کرنے کا معاوضہ ایک پاؤنڈ سے بھی کم ہے۔ ان حالات کے ستائے میں رومانین جنھیں 'جپسی' بھی کہا جاتا ہے اور بلغارین یورپی ممالک میں روزگار ڈھونڈتے ہیں۔
برطانیہ میں اس وقت بھی رومانیہ اور بلغاریہ کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو زیادہ تر تعمیرات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ بہت سے بے روزگار رومانین لوگوں کے گھر کے باہر رکھے کاٹھ کباڑ کو جمع کر کےبیچتے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں انھیں بہت کم اجرت پر ملازمت دی جاتی ہے جب کہ ان پر بزنس اورتجارت جیسے شعبوں میں کام کرنے پر پابندی ہے۔ مگر اس پابندی کے خاتمے کے ساتھ ہی انھیں حکومت کی جانب سے مقرر کردہ ایک گھنٹے کام کرنے کا معاوضہ 6.19 پاؤنڈ ادا کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ ایک عام برطانوی شہری کی طرح انھیں سرکاری فوائد مثلا پینشن، بےروزگاری الاؤنس، چائلڈبینیفٹ کے علاوہ علاج معالجہ، اسکول اور رہائش کی مفت سہولیات سے مستفیض ہونے کا حق بھی حاصل ہو جائے گا۔
یورپی یونین کے معاہدے کی ایک اہم شق ٖFreedom of movement)) کے تحت رکن ممالک کے شہری آپس میں آزادانہ نقل وحرکت کرنے کا نہ صرف حق رکھتے ہیں، بلکہ رکن ممالک میں تجارت، مواصلات، آمدورفت، امیگریشن، روزگار اور سکونت جیسی سہولیات حاصل کرنے کے بھی اہل ہیں۔
اقتصادی بدحالی کا شکار مشرقی یورپی ممالک رومانیہ اور بلغاریہ نے سنہ 2007میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی تو ان پر یورپی یونین کے معاہدے کی شق (نقل و حرکت کی آزادی) پر سات سال کی عارضی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
سال 2013 کے اختتام پر رومانیہ اور بلغاریہ کے 29 ملین یعنی 2 کروڑ 90 لاکھ عام افراد کو برطانیہ میں ویزا کی پابندی کے بغیر داخل ہونے اور ورک پرمٹ کے بغیر کام کرنے کا حق حاصل ہو جائے گا۔
یورپی یونین (یورپی ممالک کا سیاسی اور معاشی اتحاد) کو یورپ کے ملکوں نے مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے ء1993 میں تشکیل دیا تھا۔
یونین کے معاہدے پر خطے کے 27 مملک نے دستخط کر رکھے ہیں۔ مشترکہ تجارت میں سہولت پیدا کرنے کے لیے ان ممالک میں سے 17 میں ایک ہی کرنسی ' یورو' کا استعمال کیا جاتا ہے۔
'یورو' استعمال نہ کرنے والوں میں برطانیہ بھی شامل ہے جو 'پاؤنڈ' استعمال کرتا ہے۔
برطانیہ کے سیاسی حلقوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ برطانیہ اس قسم کا تجربہ پہلے بھی کر چکا ہے جب سنہ 2004 میں یورپی یونین میں شامل ہونے والے آٹھ ممالک میں سے پولینڈ اور چیکو سلواکیہ کے باسیوں کی بڑی تعداد نے برطانیہ ہجرت کی تھی۔ یہ ہجرت برطانوی معیشت کے لیے کچھ خوشگوار ثابت نہیں ہوئی تھی اور اس سے خاص طور پر افرادی قوت کے شعبے پر بہت برا اثر پڑا تھا۔
برطانیہ کے ایک سیاسی گروپ ' امیگریشن واچ' نے آئندہ سال رومانیہ اور بلغاریہ سے آنے والے افراد کی تعداد کے بارے میں ایک رپورٹ شایع کی ہے جس کے مطابق ہر سال رومانیہ اور بلغاریہ کے 50,000 ہزار کے لگ بھگ شہریوں کے برطانیہ میں داخل ہونے کا امکان ہے اور یہ تعداد پانچ سالوں میں بڑھ کر 250,000 لاکھ سالانہ تک پہنچ جائے گی۔
برطانوی حکومت کی جانب سے اگرچہ اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے مگر سرکاری سطح پر برطانیہ میں داخل ہونے والے تارکینِ وطن کی تعداد کے بارے میں کسی قسم کی پیشن گوئی کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔
ادھربرطانیہ میں تعینات رومانیہ کے سفیر نے اس رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اعداد و شمار حقیقت پر مبنی نہیں۔ ان کے مطابق آئندہ سال رومانیہ سے برطانیہ ہجرت کرنے والوں کی تعداد کم از کم 10 ہزار سے 13 ہزار کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔
ہوم آفس ( برطانوی امیگریشن) نے بھی متوقع تارکین وطن کی صحیح تعداد کے بارے میں اگرچہ کسی حتمی رائے کا اظہار نہیں کیا ہے مگر ان کے نزدیک یہ تعداد 10 ہزار سالانہ سے زائد ہو سکتی ہے۔
ہوم سکریٹری تھریسا مئی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ برطانیہ سال 2013 میں رومانیہ اور بلغاریہ کے شہریوں کی یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک کی جانب نقل مکانی پر عائد پابندی کی میعاد کو اپنے طور پر مزید نہیں بڑھا سکتا ہے۔
تھریسا مے کے بقول برطانیہ کی معیشت مضبوط ہے اوریہ ایک ٖفلاحی ریاست ہے لہذا حکومت کی جانب سے عوام کو دی جانے والی مفت سہولیات تارکینِ وطن کے لیے کشش کا باعث ہیں۔
حال ہی میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ وہ تارکینِ وطن کو دی جانے والی حکومتی سہولیات کو کم کرنا چاہتے ہیں لیکن یورپی یونین کے قانون کی پاسداری کرتے ہوئے ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
برطانوی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے انھیں برطانوی عوام کو بھی ان فوائد سے محروم کرنا پڑے گا کیونکہ وہ یورپین اور برطانوی شہریوں کے درمیان تفریق نہیں کرنا چاہتے۔
امیگریشن قوانین کے ماہرین کی رائے میں اس پابندی کے خاتمے کے بعد 'امیگریشن' کا مسئلہ کھل کر سامنے آئے گا اور برطانیہ کی لیبر مارکیٹ پر برے اثرات مرتب کرے گا جہاں پہلے ہی بے روزگار برطانوی نوجوانوں کی تعداد بڑھ کر 10 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔
محکمہ مردم شماری کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ برطانیہ میں رہایش پذیر رومانیہ کے شہریوں کی تعداد 6 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
رومانیہ اور بلغاریہ شہریوں کو یورپی یونین کی بعض شرایط پوری کرنے کے بعد یونین کے 16 ممالک میں آزادانہ نقل وحرکت کا حق پہلے ہی حاصل ہو چکا ہے جب کہ بقیہ نو مملک کے لیے انہیں یہ حق یکم جنوری 2014 سے حاصل ہو جائیگا۔
رومانیہ اور بلغاریہ مشرقی یورپ کے انتہائی غریب ملک ہیں جہاں ایک گھنٹے کام کرنے کا معاوضہ ایک پاؤنڈ سے بھی کم ہے۔ ان حالات کے ستائے میں رومانین جنھیں 'جپسی' بھی کہا جاتا ہے اور بلغارین یورپی ممالک میں روزگار ڈھونڈتے ہیں۔
برطانیہ میں اس وقت بھی رومانیہ اور بلغاریہ کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو زیادہ تر تعمیرات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ بہت سے بے روزگار رومانین لوگوں کے گھر کے باہر رکھے کاٹھ کباڑ کو جمع کر کےبیچتے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں انھیں بہت کم اجرت پر ملازمت دی جاتی ہے جب کہ ان پر بزنس اورتجارت جیسے شعبوں میں کام کرنے پر پابندی ہے۔ مگر اس پابندی کے خاتمے کے ساتھ ہی انھیں حکومت کی جانب سے مقرر کردہ ایک گھنٹے کام کرنے کا معاوضہ 6.19 پاؤنڈ ادا کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ ایک عام برطانوی شہری کی طرح انھیں سرکاری فوائد مثلا پینشن، بےروزگاری الاؤنس، چائلڈبینیفٹ کے علاوہ علاج معالجہ، اسکول اور رہائش کی مفت سہولیات سے مستفیض ہونے کا حق بھی حاصل ہو جائے گا۔