امریکہ میں تقریباً دو ہفتوں سے لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور ان کا احتجاج امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے افریقی امریکیوں کے خلاف نسلی امتیاز کے خلاف ہے۔ اور پولیس کے محکمے کی فنڈنگ روکنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس احتجاج کا آغاز گذشتہ ماہ کے آخر میں اس وقت ہوا جب امریکی ریاست منی سوٹا کے شہر منی ایپلس میں ایک سیاہ فام شہری کو گرفتار کرتے ہوئے پولیس نے ایسی طاقت استعمال کی کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگ امریکہ کے چھوٹے بڑے تمام شہروں میں اس واقعے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ افریقی امریکیوں کے خلاف پولیس کی جانبدارانہ کاروائیوں اور نسلی امتیاز کو ختم کیا جائے۔ اس احتجاج میں ہر رنگ و نسل کے لوگ شریک ہوئے ہیں۔
اتوار کے روز منی ایپلس کی سٹی کونسل نے اس وقت سب کو حیران کر دیا جب اس کے 12 میں سے 9 ارکان نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ شہر کے پولیس کے محکمے کو ختم کر کے اس کی از سرِ نو تعمیر کی جائے گی۔ سٹی کونسل کے اس فیصلے کو ویٹو بھی نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی ریاست کی اسمبلی میں اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
اس بارے میں ہیوسٹن، ٹیکساس کے اٹارنی آف لاء اور کمشنر ہیوسٹن پلاننگ اینڈ ہیوسٹن ائیر پورٹس، ظفر طاہر کہتے ہیں کہ یہ ایک غیر معمولی اقدام ہے اور اس کا مقصد صرف اصلاح نہیں بلکہ پولیس کے محکمے کو مکمل طور پر ختم کر کے اس کی تعمیر از سر نو کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر فی الفور عمل ممکن نہیں ہے کیونکہ پولیس کے تحت مختلف امور کی تکمیل ضروری ہے۔ اس لئے اس میں وقت لگ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعمیرِ نو اور اصلاحات میں فرق ہے۔ پہلے سے موجود ڈھانچے میں ردو بدل کا نام اصلاح ہے، مگر یہاں بات ہو رہی ہے ایک مکمل نئی فورس کی تشکیل کی۔
امریکہ میں احتجاجی مظاہرین کا بڑا مطالبہ ملکی پولیس فورس میں اصلاح اور اس کے وسیع اختیارات پر نظرِ ثانی کے ساتھ پولیس کی نئی کھیپ کی ٹریننگ کے طریقہ کار کو تبدیل کرنا بھی ہے۔ ایک مطالبہ پولیس کی فنڈنگ روک دینے کا بھی کیا جا رہا ہے۔
منی ایپلس کے میئر جیکب فرے نے سٹی کونسل کے فیصلے کی حمایت نہیں کی، تاہم وہ کہتے ہیں کہ وہ نظام کی تبدیلی، منظم نسلی امتیاز اور پولیس کے ڈھانچے میں اصلاحات کیلئے کام کرتے رہیں گے، مگر وہ اس کے حق میں نہیں ہیں کہ پولیس کو مکمل طور پر ختم کر کے دوبارہ قائم کیا جائے۔
امریکہ میں بلیک کاکس کی سربراہ اور کیلیفورنیا کی ڈیموکریٹک رکنِ کانگریس کیرن باس نے پولیس کو ڈیفنڈ کرنے کے مطالبات پر اپنا ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہمارے وسائل کہاں خرچ ہو رہے ہیں اور یہ کہ ہم کمیونٹی پر زیادہ خرچ کریں۔
لیزلی ریڈمنڈ منی ایپلس کی "نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپل" یا این اے اے سی پی کی صدر ہیں۔ انہوں نے امریکی ٹیلی وژن نیٹ ورک سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم پولیس کو ایک دم ختم کرنے کے حق میں نہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہر کاؤنٹی کا ایک شیرف بھی ہے جو کہ ایک منتخب عہدیدار ہوتا ہے لیکن ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ہماری پولیس ایسی ہو جو کمیونٹی میں سے ہو اور کمیونٹی کیلئے کام کرے۔ کمیونٹی کے خلاف رویہ نہ رکھتی ہو۔
صدر ٹرمپ نے اتوار کے روز ان لوگوں پر سخت نکتہ چینی کی جو پولیس کے محکمے کیلئے بجٹ میں کٹوتی یا اسے مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی کابینہ کے عہدیداروں نے بھی امریکی میڈیا پر ان مطالبات کو ہدف تنقید بنایا۔ امریکی اٹارنی جنرل ولیم بار کا کہنا تھا کہ پولیس پر یہ الزام غلط ہے کہ اس میں منظم نسلی امتیاز پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ہوم لینڈ سیکیورٹی کے قائم مقام وزیر چاڈ وولف کا بھی کہنا تھا کہ پولیس اور نیشنل گارڈ کی بڑی تعداد کی وجہ سے مظاہروں میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کو روکا جا سکا۔
ظفر طاہر کہتے ہیں کہ مظاہرے اس نانصافی کے خلاف ہیں جو معاشروں میں ایک خاص گروپ کے خلاف پائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں صرف امریکہ میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بعض طبقات کے خلاف امتیاز موجود ہے، خاص طور پر سیاہ فام باشندوں کے خلاف۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں اس امتیاز کے خلاف احتجاج شروع ہو تے ہی اس کی حمایت میں یورپ کے دیگر ممالک میں بھی لوگ سڑکوں پر آ گئے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ میں امتیاز کی خبریں بہت ابھر کر سامنے آ گئی ہیں، مگر دنیا میں ایسے ممالک کی کمی نہیں جہاں پولیس کا نظام کہیں زیادہ جابرانہ ہے مگر وہاں حکومتیں ایسی ہیں کہ یہ خبریں ملک سے باہر نہیں جاتیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ میں مظاہروں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تبدیلی کی توقع کی جا رہی ہے۔ پولیس کے وہ معاملات جو کبھی سامنے نہیں آتے تھے، اب ان پر بات ہو رہی ہے اور بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افریقی امریکی اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور بعض شہری علاقوں میں ان کی آبادی زیادہ ہے۔ اور وہ امریکہ کے بہت سے شہروں کے میئر بھی ہیں جن میں خود ان کی ریاست ٹیکساس کے دو بڑے شہروں ہیوسٹن اور ڈیلس کے میئر افریقی امریکی ہیں۔
یہ درست کہ افریقی امریکی اپنی کوشش سے زندگی کے ہر شعبے میں اپنا راستہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس میں ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے ہی لوگوں کو پولیس کی طاقت کے بے جا استعمال سے نہیں بچا پاتے۔
اختتامِ ہفتہ امریکہ بھر میں ہزاروں امریکی سڑکوں پر تھے مگر کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا اور احتجاج پر امن رہا۔ چنانچہ صدر ٹرمپ کو بھی اپنے احکامات میں تبدیلی کرنا پڑی۔
انہوں نے اتوار کے روز نیشنل گارڈز کے دستوں کو دارالحکومت واشنگٹن سے واپس بلانے کے احکام جاری کر دیے۔ ان دستوں کو واشنگٹن میں مظاہروں کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کیلئے بھیجا گیا تھا۔ امریکہ کے دیگر شہروں سے بھی نیشنل گارڈز کے دستوں کو ہٹایا جا رہا ہے۔