|
نئی دہلی _ بھارت کی سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار برقرار رکھتے ہوئے 1967 کے فیصلے کو منسوخ کر دیا ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے جمعے کو اکثریتی فیصلہ پڑھ کر سنایا اور 1967 کے اُس فیصلے کو منسوخ کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے 1967 کے عزیز باشا بنام حکومتِ ہند کیس میں سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اگر کوئی ادارہ کسی قانون کے ذریعے بنتا ہے تو اقلیتی ادارہ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
واضح رہے کہ تعلیمی تحریک کے بانی سر سید احمد خان کے ذریعے 1875 میں قائم کردہ تعلیمی ادارے علی گڑھ مسلم اسکول کو 1920 میں پارلیمان کے ایک قانون کے ذریعے یونیورسٹی بنایا گیا تھا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا استدلال تھا کہ اس تعلیمی ادارے کو مسلمانوں نے قائم کیا اور وہی اس کا انتظام و انصرام دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا وہ اقلیتی ادارہ ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ تین کے مقابلے میں چار ججز کی اکثریت سے سنایا۔ تاہم بینچ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس معاملے کا فیصلہ ایک تین رکنی ریگولر بینچ کرے گا اور اس سات رکنی بینچ کے ذریعے طے کیے گئے معیارات کے تحت کرے گا۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ فیصلے میں تین اختلافی آرا سمیت چار الگ الگ آرا شامل ہیں۔ ان کے مطابق انہوں نے یہ اکثریتی فیصلہ اپنی اور جسٹس سنجیو کھنہ، جے بی پاردی والا اور منوج مشرا کی جانب سے لکھا ہے جب کہ جسٹس سوریہ کانت، دیپانکر دتہ اور ستیش چندر شرما نے اپنے اختلافی فیصلے الگ لکھے ہیں۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ 10 نومبر کو سبکدوش ہو رہے ہیں اور بطور چیف جسٹس ان کا یہ آخری فیصلہ ہے۔
عدالت نے رواں برس یکم فروری کو علی گڑھ یونیورسٹی کیس کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
علی گڑھ یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا معاملہ 2006 میں الہٰ آباد ہائی کورٹ میں بھی زیرِ سماعت آیا تھا جہاں عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ حاصل ہے۔ بعد ازاں اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
قانون کے استاد اور معروف قانون دان پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے نئی دہلی کے نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے جاتے جاتے ایک غلط فیصلے کو منسوخ کر دیا۔
ان کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار فی الحال برقرار رہے گا تاہم اس سلسلے میں حتمی فیصلہ ایک دوسرا بینچ کرے گا۔
SEE ALSO: بھارت: مدارس پر پابندی سے متعلق الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدمان کے مطابق 1967 اور 2006 کے فیصلوں کو منسوخ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ 1981 میں اُس وقت کی مرکزی حکومت نے اِس کے اقلیتی کردار سے متعلق جو قانون بنایا تھا وہ برقرار رہے گا۔
واضح رہے کہ علی گڑھ برادری کی جانب سے اقلیتی کردار کی بحالی کی تحریک چلائی گئی تھی جس کے نتیجے میں 1981 میں اُس وقت کی اندرا گاندھی حکومت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے ایک ترمیمی آرڈیننس منظور کروا کر اس کے اقلیتی کردار کو بحال کیا تھا۔
فیضان مصطفیٰ کا مزید کہنا تھا کہ سات ججوں کا آئینی بینچ کوئی فیصلہ نہیں سناتا بلکہ قانون کی وضاحت کرتا ہے۔ اس نے یہ واضح کیا ہے کہ دستور کی دفعہ 30 میں مذہبی اقلیتوں کو اپنے تعلیمی اداروں کے قیام اور انتظام و انصرام کا حق دیا گیا ہے۔
اعلیٰ عدالت نے قرار دیا ہے کہ دستور کی دفعہ 30 دستور کے نفاذ سے قبل قائم کیے گئے اداروں پر بھی نافذ ہوگی۔