رسائی کے لنکس

سوزی وائلز نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کی چیف آف اسٹاف مقرر، اہم عہدوں کے لیے مزید نام زیرِ غور


  • سوزی وائلز وائٹ ہاؤس کی چیف آف اسٹاف کے عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہوں گی۔
  • سوزی وائلز طویل عرصے سے ری پبلکن پارٹی سے وابستہ ہیں اور وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کی دو اہم مینیجرز میں سے ایک ہیں۔
  • ٹرمپ کی نئی حکومت میں وزیرِ خارجہ کے عہدے کے لیے رابرٹ اوبرین کا نام زیرِ گردش ہے۔
  • ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت میں وزیرِ خارجہ اور سی آئی اے ڈائریکٹر کے عہدے پر خدمات انجام دینے والے مائیک پومپیو، ان دونوں عہدوں میں سے کسی ایک یا پھر وزیرِ دفاع کے عہدے پر نامزد ہو سکتے ہیں۔
  • رابرٹ لائٹزر ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران ٹریڈ ریپریزنٹیٹو تھے اور اس بار وہ کسی بڑے عہدے جیسا کہ وزیرِ خزانہ کے کردار میں سامنے آ سکتے ہیں۔
  • جان ریٹکلف ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت میں نیشنل انٹیلی جینس کے ڈائریکٹر تھے جو سینئر انٹیلی جینس سے لے کر اٹارنی جنرل سمیت کئی اہم عہدوں پر تعینات ہو سکتے ہیں۔

ویب ڈیسک _ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کی مینیجر سوزی وائلز کو اپنا چیف آف اسٹاف مقرر کر دیا ہے جب کہ دیگر عہدوں کے لیے وہ کئی ناموں پر غور کر رہے ہیں۔

آئندہ برس 20 جنوری کو صدارت کا عہدہ سنبھالنے سے قبل نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگلے گیارہ ہفتے تک اپنی حکومت کے اہم عہدوں پر نامزدگیاں کریں گے۔

امریکہ کے نئے صدر کو اپنی حکومت میں ہزاروں تقرریاں کرنا ہوتی ہیں لیکن انتخاب کے پہلے ہفتے توجہ ایسے ناموں پر ہوتی ہے جو کابینہ میں شامل ہوں گے۔

عام طور پر صدر کی کابینہ نائب صدر اور ایگزیکٹو برانچ کے 15 مختلف محکموں کے عہدیداروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ جیسا کہ وزارتِ خارجہ اور وزارتِ خزانہ۔ اسی طرح صدر کابینہ کی سطح کی 10 پوزیشنز پر نامزدگیاں کرتے ہیں جن میں نیشنل انٹیلی جینس کے ڈائریکٹر، وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف اور دیگر شامل ہیں۔

نائب صدر اور چیف آف اسٹاف کے سوا کابینہ میں نامزد تمام افراد کی سینیٹ سے تصدیق لازمی ہوتی ہے۔

جمعرات کی شام ٹرمپ نے کہا کہ سوزی وائلز وائٹ ہاؤس کی چیف آف اسٹاف ہوں گی۔ وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہوں گی۔

سوزی وائلز طویل عرصے سے ری پبلکن پارٹی سے وابستہ ہیں اور وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کی دو اہم مینیجرز میں سے ایک ہیں۔

سوزی وائلز کے نام کا اعلان کرنے سے قبل ٹرمپ نے بعض اشارے دیے ہیں کہ وہ اپنی دوسری مدتِ صدارت کے دوران کن کن افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ٹرمپ کی نئی کابینہ میں کانگریس کے موجودہ اور سابق ارکان کے علاوہ کاروباری دنیا سے تعلق رکھنے والی ایسی شخصیات بھی شامل ہو سکتی ہیں جنہوں نے ان کی انتخابی مہم کی بھرپور حمایت کی تھی۔ جیسا کہ اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک۔

انتقالِ اقتدار کی ٹیم

صدارتی الیکشن ختم ہونے سے قبل ہی صدارتی امیدوار عام طور پر انتقالِ اقتدار کی ٹیم تشکیل دیتے ہیں تاکہ اگلے مراحل کو انجام دیا جائے۔

سابق صدر جارج ڈبلیو بش اور 2012 میں ری پبلکن صدارتی امیدوار مٹ رومنی کی انتقالِ اقتدار ٹیم کا حصہ رہنے والی جو اینی سیئرز کہتی ہیں کہ وہ ٹرمپ کی انتقالِ اقتدار کی ٹیم کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان سے توقع رکھتی ہیں کہ جب وہ اہم عہدوں پر نامزدگیاں کریں گے تو وسیع حلقوں کو نگاہ میں رکھیں گے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ ٹرمپ کی انتقالِ اقتدار کی ٹیم واشنگٹن ڈی سی میں بہترین لوگ لانا چاہتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نئی حکومت کا حصہ بننے والوں کا تعلق ملک کے مختلف حصوں سے ہوگا اور وہ صرف نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی سے ہی تعلق رکھنے والے نہیں ہوں گے۔

اینی سیئرز نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں ٹرمپ ایسے لوگ لانا چاہتے ہیں جو اپنے شعبوں کے ماہر ہیں اور شاید یہ ان کا مقصد بھی ہے۔ ایسے افراد چاہے وہ نیشنل سیکیورٹی، ہوم لینڈ سیکیورٹی اور حکومت کو درست انداز میں چلانے کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لینے والے ہوں۔

ٹرمپ کی سابق کابینہ کے نام بھی زیرِ غور

ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت کے دوران کئی اہم عہدوں کے لیے ان ہی ناموں کا انتخاب ہو سکتا ہے جو ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت میں اہم عہدوں پر تعینات تھے۔

ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت میں وزیرِ خارجہ اور سی آئی اے ڈائریکٹر کے عہدے پر خدمات انجام دینے والے مائیک پومپیو، ان دونوں عہدوں میں سے کسی ایک یا پھر وزیرِ دفاع کے عہدے پر نامزد ہو سکتے ہیں۔

ٹرمپ کی نئی حکومت میں وزیرِ خارجہ کے عہدے کے لیے رابرٹ اوبرین کا نام زیرِ گردش ہے۔ انہوں نے ٹرمپ کی پہلی حکومت میں قومی سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔

رابرٹ لائٹزر ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران ٹریڈ ریپریزنٹیٹو تھے اور اس بار وہ کسی بڑے عہدے جیسا کہ وزیرِ خزانہ کے کردار میں سامنے آ سکتے ہیں۔

اسی طرح جان ریٹکلف ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت میں نیشنل انٹیلی جینس کے ڈائریکٹر تھے جو سینئر انٹیلی جینس سے لے کر اٹارنی جنرل سمیت کئی اہم عہدوں پر تعینات ہو سکتے ہیں۔

ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ [ڈبلیو ڈبلیو ای] کی سابق سی ای او لنڈا مک ماہن نے ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں اسمال بزنس ایڈمنسٹریشن کی سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔ اس وقت وہ ٹرمپ کی انتقالِ اقتدار کی ٹیم کا حصہ ہیں اور ان کا نام وزیرِ تجارت کے لیے زیرِ غور ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG