نجلہ بدر نے گزشتہ برس امریکہ کی ریاست نیو جرسی کے ہائی اسکول کی اپنی کلاس میں نائن الیون کی تاریخ پر بات نہیں کی تھی۔ یہ وبا کا دور تھا اور آن لائن کلاسوں کے دوران وہ اس موضوع پر طلبہ سے بات نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
لیکن رواں برس تعلمی ادارے کھل گئے ہیں اور نائن الیون کی برسی ایسے وقت میں آرہی ہے جب امریکہ، افغانستان میں جنگ ختم کر چکا ہے تو نجلہ اس نتیجے پر پہنچی تھیں کہ وہ اس موضوع پر بچوں کو مزید نہیں پڑھا سکیں گی۔
گزشتہ ماہ جب بین الاقوامی سفارت کاری کے مضمون کی کلاس میں نجلہ طلبہ سے متعارف ہوئیں اور انہیں گفتگو کے لیے ماحول ساز گار محسوس ہوا تو انہوں نے دو سوال پوچھے۔
نجلہ کے سوالات تھے کہ نائن الیون کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں، آپ کے خیال میں اس کے اسباب کیا تھے اور اس واقعے کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ اس واقعے کا افغانستان سے کیا تعلق تھا؟
نجلہ کو طلبہ کے جواب کا اندازہ نہیں تھا البتہ وہ اس موضوع پر گفتگو کا آغاز کر چکی تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اساتذہ کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ایسے موضوعات پڑھانے سے کترانا نہیں چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
نجلہ بدر ایک غیر سرکاری تنظیم ’ٹیجنگ وائل مسلم‘ کی شریک بانی ہیں۔ ان کے نزدیک کئی اساتزہ ایسے موضوعات پر بات کرنے سے کتراتے ہیں جنھیں سیاسی تصور کیا جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ بد قسمتی ہے کہ نائن الیون سے متعلق دنیا میں بے پناہ گمراہ کن معلومات پھیل چکی ہے۔
’تاریخ بتانے کی گنجائش کم ہے‘
امریکہ میں آج اساتذہ کو نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی نسل کو اس واقعے کی تاریخ سے متعلق کچھ پڑھانے یا بتانے میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ایک طرف نصاب مکمل کرانے کا ہدف ہے جس کی وجہ سے کم ہی دیگر موضوعات پر طویل گفتگو یا بحث کی گنجائش بچتی ہے۔
دوسری جانب نئی نسل کی معلومات کا ماخذ سوشل میڈیا ہے جہاں اس واقعے سے متعلق بیس برس بعد بھی سازشی نظریات کی بھرمار ہے۔ طلبہ کی اکثریت سازشی نظریات اور حقائق میں تمیز کی تربیت نہیں رکھتی۔
آج انٹرنیٹ پر نائن الیون سے متعلق سازشی نظریات پر مبنی ویڈیوز، بلاگز اور باقاعدہ ویب سائٹ کثرت سے دستیاب ہیں۔ جو لاکھوں صارفین کی نظر سے گزر چکی ہیں اور اب بھی ایک بڑی تعداد ان کی جانب رجوع کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان سازشی نظریات کی قلعی کھولنے کے لیے کیا گیا کام بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔
نیویارک کی سرکیوز یونیورسٹی میں سوشل میڈیا پر تحقیق کرنے والی جینیفر گریجیل کا کہنا ہے کہ آج کے دور کے طلبہ کی اس سانحے سے براہِ راست یادیں وابستہ نہیں۔ لیکن وہ اپنی پوری زندگی اس کے بارے میں سنتے آ رہے ہیں۔ اگر انہیں اس بارے میں حقائق پر مبنی معلومات نہیں دی گئیں تو غیر حقیقی معلومات اس خلا کو پُر کریں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ سازشی نظریات نامعلوم باتوں سے پروان چڑھتے ہیں اور نائن الیون کے بارے میں بہت کچھ نامعلوم ہے۔ اس خلیج کو پورا کرنے کے لیے لوگ انٹرنیٹ سے رجوع کرتے ہیں اور انہیں کیا ملتا ہے، اس کا انحصار تو ان کے سامنے آنے والے نتائج پر ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
یوٹیوب اور فیس بک جیسے پلیٹ فارمز کا کہنا ہے کہ انہوں نے نائن الیون سے متعلق گمراہ کن معلومات کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
اس کے لیے ایسی معلومات کے لنکس یا ماخذ کی جانب رہنمائی کی جاتی ہے جن سے وہم و گمان پر مبنی مواد کی درستی ہو سکتی ہے۔
نائن الیون سے متعلق سازی نظریات پر مبنی سوالات کے جواب کے لیے ’نیشنل سیپٹمبر الیون میموریل اینڈ میوزیم‘ کا ادارہ اساتذہ کی تربیت کا اہتمام کررہا ہے۔
سوچنا سکھانا ہے
طویل عرصے سے تاریخ پڑھانے والی کیتھی ڈرہم ریاست نیواڈا کے دیہی علاقے مغربی وینڈور کے ہائی اسکول میں نائن الیون کی تاریخ پڑھاتی ہے۔
وہ اس کے لیے بنیادی ماخذ سے رجوع کرتی ہیں۔ وہ طلبہ کو دستاویزی فلموں اور پرانی خبروں کے مطالعے کے ساتھ اس دور کو دیکھنے والے افراد سے بات کرنے کی تاکید کرتی ہیں۔
ان کے بقول کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی طالب علم نائن الیون کے واقعات کو ’اندر کے لوگوں کی کارروائی‘ قرار دینے کے دعوے کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ ڈرہم کہتی ہیں وہ ایسے طلبہ سے کہتی ہیں کہ وہ معلومات کے ذرائع اور ماخذ ک قابلِ اعتماد ہونے اور اپنے دعوے کے حق میں پیش کردہ شواہد کا جائزہ لیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارا کام بہت نازک ہے کیوں کہ ہمارا کام بچوں کو سوچنا سکھانا ہے ،یہ بتانا نہیں کہ انہیں کیا سوچنا چاہیے۔
نائن الیون واقع کے بعد ابتدائی عرصے میں یہ ایک قدرے جذباتی موضوع تھا۔ لیکن اب ان حملوں کے متاثرین کے لواحقین بھی اس بات کے حامی ہیں کہ ان سے متعلق درست معلومات آنے والی نسل تک پہنچائی جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انتھونی گارڈنرن کے بھائی ہاروی کی موت بھی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے میں ہوئی تھی۔ انہوں نے ’سیپٹمبر الیونتھ ایجوکیشن ٹرسٹ‘ بنایا ہے۔
یہ ٹرسٹ ہر سال نائن الیون کی برسی کے علاوہ سال کے دیگر دنوں میں بھی اس سانحے سے متعلق اسباق پر مبنی نصاب فراہم کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ طلبہ پہلے اس سانحے میں مرنے والوں کے بارے میں جانتے ہیں اور پھر انہیں بعد کے حالات بتائے جاتے ہیں۔ اس طریقے سے وہ خود ہی نتائج اخذ کرلیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارا عہد ہے ہم اس سانحے کو فراموش نہیں ہونے دیں گے۔
ذاتی کہانیاں زیادہ مؤثر ہیں
بعض اساتذہ نائن الیون سے متعلق طلبہ میں آگاہی کے لیے ذاتی تجربات اور کہانیوں کو زیادہ مؤثر قرار دیتے ہیں۔ امریکہ کی ریاست مسی سپی میں ایک ابتدائی تعلیم کے اسکول کی استاد لز پرنس اس واقعے سے متعلق ذاتی تجربات رکھنے والے افراد کے انٹرویو ریکارڈ کرتی ہیں۔ بعد میں ہیں انٹرویو اپنے پانچویں جماعت کے طلبہ کو سنواتی ہیں۔
انہوں نے ایسی کتابیں بھی رکھی ہوئی ہیں جو بچوں کو ان کے عمر کے اعتبار سے حملے کے مقامات اور متاثرہ افراد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے مددگار ہیں۔
لیکن لز پرنس اپنے طلبہ کے ساتھ افغانستان پر بات نہیں کرتیں کیوں کہ یہ موضوع ان کے نزدیک زیادہ سیاسی ہے۔
نیو جرسی میں نجلہ بدر نائن الیون اور اس سے قبل افغانستان کے حالات سے امریکہ کے تعلق کے بارے میں بچوں کے لیے واقعات کا ایک بنیادی خاکہ تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں اس میں اپنے بچپن کا وقت بھی یاد آتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جب نائن الیون کے واقعات ہوئے تو نجلہ کی عمر 11 برس تھی۔ ان واقعات کے بعد ہونے والے مسلم مخالف حملوں نے نجلہ کے والدین کو ان کے تحفظ کے بارے میں خوفزدہ کردیا تھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ خدشات کے پیشِ نظر ان کے والدین نے انہیں حجاب اوڑھنے سے منع کردیا تھا۔ نجلہ کو اپنی یہ خواہش پوری کرنے کے لیے ایک دہائی انتظار کرنا پڑا۔