کوہ پیمائی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلندی پر صرف چند گھنٹے تک ہی زندہ رہنا ممکن ہے۔
دنیا کی بلند ترین چوٹی 'ایورسٹ' سر کرنے والی پاکستان کی پہلی خاتون کوہ پیما ثمینہ بیگ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ محمد علی سدپارہ کا کھو جانا نہ صرف پاکستان بلکہ پوری کوہ پیما برادری کے لیے افسوس ناک خبر ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ دعائیں کر رہے ہیں اور معجزوں کی توقع کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اتنی زیادہ بلندی اور درجہ حرارت میں زیادہ سے زیادہ 10 گھنٹے تک ہی زندہ رہا جا سکتا ہے۔
ثمینہ بیگ کا تعلق گلگت بلتستان کے علاقے شمشال سے ہے۔ انہوں نے 2013 میں 21 سال کی عمر میں دنیا کی بلند ترین چوٹی 'ایورسٹ' سر کی تھی۔
ثمینہ بیگ نے کہا کہ کوئی بھی کام کرنے سے قبل ماحول سے ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔ اگر کوئی کراچی یا لاہور سے آتا ہے تو اس کو ماحول کا عادی ہونے میں وقت لگتا ہے۔ کیوں کہ جتنی بھی آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیاں ہیں ان کو سر کرنے کی مہم عموماََ دو ماہ کی ہوتی ہے۔ تاہم 'ایورسٹ' کو سر کرنے کی کوشش میں ان کو زیادہ وقت نہیں لگا کیوں کہ وہ اس ماحول سے پہلے کی عادی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کوہ پیما اکلاماٹائز ہونے کے بعد سب سے پہلے بیس کیمپ جاتے ہیں جس کی بلندی پانچ ہزار میٹر ہوتی ہے۔ جہاں سے پھر ایڈوانس بیس کیمپ، پھر کیمپ ون، کیمپ ٹو، کیمپ تھری، کیمپ فور تک کا سفر ہوتا ہے۔
ثمینہ بیگ کے مطابق کیمپ فور آخری کیمپ ہوتا ہے جہاں سے کوہ پیما کسی چوٹی کو سر کرنے کے لیے آخری سفر کا سامان باندھتے ہیں جس کے بعد باٹل نک آتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے-ٹو کو موسمِ سرما میں سر کرنے کی مہم جوئی پر جانے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو مور گزشتہ ایک ہفتے سے لاپتا ہیں۔ تینوں کوہ پیماؤں کو آخری مرتبہ پانچ فروری کی دوپہر باٹل نک کی جانب گامزن دیکھا گیا تھا۔
لیکن اس کے بعد سے ان کا بیس کیمپ اور اہلِ خانہ سے رابطہ منقطع ہے۔
لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے چند روز سے سرچ اور ریسکیو آپریشن بھی جاری ہے۔ ریسکیو مشن کے دوران فوج کے ہیلی کاپٹروں نے 7000 میٹر کی بلندی تک پرواز کی ہے۔ تاہم سرتوڑ کوششوں کے باوجود ریسکیو ٹیموں کو کوئی کامیابی نہ مل سکی۔
ادھر پاک فوج نے لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے انفراریڈ کیمرے استعمال کرنے کا اعلان کیا ہے۔
'ماؤنٹ ایورسٹ' سر کرنے والی واحد پاکستانی خاتون ثمینہ بیگ کہتی ہیں کہ کے-ٹو بہت ہی ٹیکنیکل پہاڑ ہے۔ لیکن باٹل نک سب سے خطرناک حصہ ہے جس کی حد تقریباََ 8200 میٹرز کی اونچائی سے شروع ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد علی سدپارہ کے مطابق انہوں نے اپنے والد اور دوسرے کوہ پیما کو آخری مرتبہ باٹل نک کی جانب گامزن دیکھا تھا۔
ثمینہ بیگ کا کہنا ہے کہ ان کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ حادثہ باٹل نک پر ہی پیش آیا ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق کیمپ فور سے جب کوہ پیما چوٹی کو سر کرنے کے لیے آگے بڑھنا شروع کرتے ہیں تو یہ سفر سات سے آٹھ گھنٹوں میں طے ہونا چاہیے۔ کیوں کہ سفر بہت خطرناک اور تھکا دینے والا ہوتا ہے۔ باٹل نک کی جانب ایک ایک قدم بڑھانے میں کئی کئی منٹ لگ جاتے ہیں۔ ان کے مطابق کوہ پیما عموماََ رات کے 12 یا دو بجے اپنا سفر شروع کرتے ہیں۔ تاکہ چوٹی کو سر کرنے کے بعد وہ واپسی کا سفر دن کی روشنی میں کر سکیں۔ کوہ پیما روشنی کے لیے ہیڈ لیمپس کا سہارا لیتے ہیں۔
کے-ٹو کا شمار دنیا کے مشکل ترین پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ کوہ پیما کہتے ہیں کہ زیادہ تر حادثات نیچے کی جانب آتے ہوئے پیش آتے ہیں۔ اب تک کے-ٹو کو سر کرنے کی کوشش میں 88 کوہ پیما اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد علی سدپارہ کا بھی یہی خیال ہے کہ تینوں لاپتا کوہ پیماؤں کو ممکنہ طور پر چوٹی سر کرنے کے بعد واپسی پر حادثہ پیش آیا ہو گا۔
ثمینہ بیگ کہتی ہیں کہ اس دوران کوہ پیماؤں کی فٹنس بہت زیادہ اچھی ہونی چاہیے۔ انہوں نے کیمپ فور سے اپنا ایورسٹ کا سفر شام کے ساڑھے سات بچے شروع کیا تھا اور صبح سات بجکر 40 منٹ پر بلا آخر ایورسٹ کو سر کیا جس کے بعد انہوں نے واپسی کا سفر باندھا اور مسلسل 34 گھنٹے سفر میں گزرے۔
ثمینہ بیگ کا کہنا تھا کہ کوہ پیما بیس کیمپ سے دوسرے کیمپوں میں جانے کے لیے کئی مرحلے طے کرتے ہیں تاکہ وہ چوٹی سر کرنے سے پہلے اچھی طرح کی پریکٹس کر لیں اور غلطی کی گنجائش نہ ہو۔
ماہرین کے مطابق کے-ٹو کے پہاڑ پر درجۂ حرارت عموماََ منفی 40 ڈگری تک ہوتا ہے۔ تاہم اس بار کوہ پیماؤں کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت منفی 60 سے بھی نیچے گر گیا تھا۔
کوہ پیما اس طرح کی چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے فٹنس کے ساتھ ساتھ اچھے لباس اور دوسری ضروری اشیا کا خاص خیال رکھتے ہیں۔
ثمینہ بیگ کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ کوہ پیماؤں کے لباس میں بھی بہت جدت آ گئی ہے۔ جسم کو منفی 40 ڈگری تک گرم رکھنے کے لیے بہت ہلکے جیکٹس آ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پیروں کو گرم رکھنے کے لیے بوٹ اور سلیپنگ بیگ بھی منفی 45 سے منفی 50 ڈگری تک موسم کا مقابلہ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول کوہ پیما اس کے علاہ گوگلز، آئس ایکس، رسیاں، آکسیجن کی بوتلیں اور دوسری اشیا اپنی آسانی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موسم گرما میں کے-ٹو پر درجہ حرارت منفی 50 ڈگری تک جاتا ہے۔ تاہم جب درجہ حرارت مزید نیچے جاتا ہے تو کوہ پیماؤں کو مسلسل حرکت میں رہنا ہوتا ہے۔ کیوں کہ ریسٹ کی حالت میں خون جمنے کے امکانات بہت زیادہ ہو جاتے ہیں جس کے بعد اکثر کوہ پیما فراسٹ بائیٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ثمینہ بیگ کہتی ہیں کہ موسم سرما میں چوٹیوں کو سر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اور کوہ پیما جسم کور کرنے کے لیے تہ در تہ جیکٹس کا سہارا لیتے ہیں۔
ثمینہ بیگ کے مطابق کوہ پیما کو مہم جوئی کے دوران کھانے پینے کی زیادہ فکر نہیں ہوتی ہے۔ زیادہ تر وہ پیک خوراک، پانی، انرجی ڈرنکس اور جل وغیر کا سہارا لیتے ہیں۔ کیوں کہ اوپر کی جانب جاتے ہوئے ہر کوئی اپنے آپ کو ہلکے سے ہلکا رکھنا چاہتا ہے۔
ثمینہ بیگ کے مطابق اپنے ملک کا پرچم ویسے تو ہر جگہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن دنیا کی سب سے بلند چوٹی پر اپنے ملک کا پرچم لہرانا، وہاں اس کے ساتھ تصویر بنانا ناقابلِ فراموش لمحہ ہوتا ہے۔
ان کے مطابق کوہ پیمائی بہت مہنگا شوق ہے۔ اس کی کٹ، فیس اور رجسٹریشن لاکھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم سخت محنت اور مشکلات کے بعد جب کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ آپ کی زندگی میں بہت معنی رکھتی ہے۔
پاکستان کی فوج کے ہیلی کاپٹرز کے علاوہ پاکستان ایئر فورس کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس جہاز کو استعمال کرتے ہوئے لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش جاری ہے۔ مسلسل خراب موسم کے باعث ابھی تک کسی بھی قسم کی کامیابی نہیں ملی ہے۔
الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری کا کہنا ہے کہ کے-ٹو کو موسم سرما میں سر کرنے کے حوالے سے مہم ختم کر دی گئی ہے۔ تاہم فضائی سرچ آپریشن اب بھی جاری ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کرار حیدری نے بتایا کہ جیسے ہی لاپتا کوہ پیماؤں کے بارے میں کسی بھی قسم کی نشاندہی ہوتی ہے تو گراونڈ آپریشن بھی شروع کر دیا جائے گا۔
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے اکثر کوہ پیما شروع میں بطور پورٹر، جب کہ بعد میں خود سے کوہ پیمائی شروع کر دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومتی امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان کی جانب سے 1977 میں پہلی مرتبہ کے- ٹو سر کرنے والے کوہ پیما اشرف امان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں کوہ پیمائی کو کھیل کا درجہ ہی حاصل نہیں ہے اور حکومتی سرپرستی کے بغیر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اس میں شامل ہوتے ہیں۔