ملائیشیا کی نجی فضائی کمپنی کے اتوار کو دوران پرواز لاپتا ہونے والے طیارے کی تلاش کا کام پیر کو دوبارہ شروع ہوا۔ یہ جہاز انڈونیشیا سے سنگاپور جاتے ہوئے اچانک لاپتا ہو گیا تھا۔
تلاش کی سرگرمیوں میں مصروف انڈونیشیا کی ایجنسی کے سربراہ بامبانگ سوئلیسٹیو کا کہنا ہے کہ "ایئر ایشیا" کا لاپتا طیارہ ممکنہ طور پر "سمندر کی تہہ میں ہو سکتا ہے۔"
انھوں نے پیر کو جکارتا میں صحافیوں کو بتایا کہ 162 افراد کو لے کر جانے والی ایئر بس 320 کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ انڈونیشیا کے بحیرہ جاوا میں گر کر تباہ ہوئی۔
اتوار کو اندھیرا بڑھ جانے کی وجہ سے تلاش کی کارروائیاں روک دی گئی تھیں جو پیر کو دوبارہ شروع کی گئی ہیں۔ جہاز کے مسافروں کے رشتے دار طیارے سے متعلق کسی امید افزا خبر کے لیے بیتاب ہیں۔
تلاش کی ان کارروائیوں میں جہاز، کشتیاں اور ہیلی کاپٹر استعمال کیے جا رہے ہیں۔ امریکہ سمیت متعدد ملکوں نے اس سرگرمی میں مدد کی پیشکش بھی کر رکھی ہے۔
مسافر طیارہ اتوار کی صبح انڈونیشیا کے شہر سورابایا سے سنگاپور کے لیے روانہ ہوا تھا کہ نصف مسافت طے کر جانے کے بعد اتوار کی صبح لاپتا ہو گیا۔
پائلٹ نے ایئر ٹریفک کنٹرولر سے درخواست کی تھی کہ وہ طوفانی موسم سے بچنے کے لیے جہاز کو مزید 1800 میٹر بلندی پر لے جانا چاہتا ہے۔ انڈونیشیا کے وزارت ٹرانسپورٹ کے ایک عہدیدار کے مطابق کٹرولر نے یہ کہہ کر پائلٹ کو اجازت نہیں دی کیونکہ اس وقت ایک اور جہاز اسی علاقے میں محو پرواز تھا۔
اس گفتگو کے بعد مکمل طور پر خاموشی چھا گئی اور ایئر ٹریفک کنٹرولر کو جہاز سے کسی بھی طرح کی مشکل صورتحال کے بارے میں کوئی پیغام موصول نہیں ہوا۔
ایئر ایشیا کے چیف ایگزیکٹو افسر ٹونی فرنینڈس نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ "جو کچھ ہوا اس پر ہم سب شدید غمزدہ ہیں، لیکن ہمیں تاحال یہ معلوم نہیں کیا ہوا لہذا ہم تحقیقات کا انتظار کریں گے کہ حقیقت کا پتا چل سکے۔"
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس موقع پر جہاز کو پیش آنے والے واقعے کے بارے میں کوئی بھی قیاس آرائی نہیں کرنا چاہتے۔
جہاز پر انڈونیشیا کے 149، جنوبی کوریا کے تین جب کہ برطانیہ، ملائیشیا اور سنگاپور کا ایک، ایک شہری سوار تھا۔ مسافروں میں بچے بھی شامل تھے۔ عملے کے ساتھ ارکان میں سے چھ کا تعلق انڈونیشیا جب کہ معاون پائلٹ کا تعلق فرانس سے بتایا جاتا ہے۔