امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی اس ہفتے وائٹ ہاؤس میں شان شوکت والی تقریبات کے ساتھ ملاقات اور بھارتی رہنما کا کانگریس سے خطاب جہاں دو ملکوں کے درمیان شراکت داری کی مضبوطی کا غماز ہے وہیں ماہرین کی نظر میں یہ دورہ واشنگٹن اور نئی دہلی کی تیزی سے ابھرتے ہوئے چین سے مسابقت کے معاملے پر مشترکہ سوچ کا ایک واضح اظہار بھی ہے۔
دورے کے دوران امریکہ اور بھارت نے دفاع اور ٹیکنالوجی سمیت کئی شعبوں میں تعاون کے معاہدے کیے اور راہنماوں نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو اکیسویں صدی کی اہم ترین شراکت داری قرار دیا۔ صدر بائیڈن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں ممالک جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہیں اور نوٹ کیا کہ امریکہ اور چین کے تعلقات امریکہ اور بھارت کے باہمی تعلقات کے مقابلے میں اس مقام پر نہ پہنچنے کی ایک بنیادی وجہ امریکہ اور بھارت کا جمہوری ملک ہونا ہے۔ اس سے قبل انہوں نے چین کے صدر شی جن پنگ کی حکمرانی کو ڈکٹیٹرشپ سے تشبیہ دی تھی۔
واشنگٹن میں امریکہ کے ایشیا ئی ممالک سے تعلقات اور پالیسی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ اس دورے کے دوران امریکہ اور بھارت کے وسیع البنیاد تعلقات کے امکانات اور اقدامات پر توجہ کے باوجود چین ایک فیصلہ کن عنصر ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ بیجنگ ے نمٹنے کی سوچ واشنگٹن اور نئی دہلی کے مشترکہ مفاد ات میں سے ایک اہم ترین محرک ہے۔
واشنگٹن کے اسٹمسن سینٹر تھنک ٹینک میں جنوبی ایشیا پروگرام کی ڈائریکٹر الزبیتھ تھریل کیلڈ کہتی ہیں کہ چین کے بارے میں تشویش نے امریکہ اور بھارت کے باہمی تعلقات کو مومینٹم یا تقویت دینے میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چین کی وجہ سے دونوں فریقوں کو یہ ترغیب ملی کے وہ ایک دوسرے سے گفت و شنید کریں کہ اس چیلنج سے کیسے نمٹا جائے۔
"یہ کہنا درست ہوگا کہ اگر چین ان تعلقات میں اتنا اہم عنصر نہ ہوتا تو امریکہ اور بھارت کے تعلقات اتنے آگے نہ بٖڑھ پاتے۔"
اس نقطے کی وضاحت کرتے ہوئے الزببتھ تھریل کلیڈ کہتی ہیں کہ چین کی امریکہ- بھارت تعلقات میں اہمیت کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں ملکوں کے قریب آنے میں صرف یہی ایک وجہ ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بھارت کی اقتصادی اہمیت، ایک بڑی منڈی ہونا اور دونوں ملکوں کے لوگوں میں روابط کو بھی اہم عناصر قرار دیا۔ لیکن، ان کے بقول، چین ایک بڑی وجہ ضرور ہے۔
یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں جنوبی ایشیائی امور کے سینئر مشیر ڈینیئل مارکی، چین کی علاقائی جارحیت روکنے کو امریکہ اور بھارت کے درمیان تعاون کی بنیاد قرار دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق بھارت کی جانب سے خطے میں چین کے سیاسی اثر و رسوخ اور فوجی موجودگی کی توسیع کو چیلنج کرنا امریکہ اور بھارت کے مشترکہ مفاد میں ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ سب سے فوری تشویش کا معاملہ چین اور بھارت کی زمینی سرحد پر لائن آف ایکچوئل کنٹرول ہے جہاں چین نے فوجی انفراسٹرکچر میں وسیع سرمایہ کاری کی ہے اور جس کی وجہ سے وہ پہلے ہی بھارت کو گشت کرنے کے مقامات سے پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈینیئل مارکی کے مطابق امریکی حکام ایسے حملوں کو روکنے اور بھارت کی دفاعی صلاحیت کو تقویت دینے میں مدد کرنا چاہتے ہیں، امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ حملے بھارتی سلامتی کے لیے ایک حقیقی قریب المدت خطرہ ہیں اور ایک ایسی خطرناک مثال کی نمائندگی کرتے ہیں جس کے تحت چین ہند-بحرالکاہل کے علاقے میں دیگر کم طاقتور ریاستوں کو ڈرا سکتا ہے۔
دورے کے بارے میں ایک بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ بھارت کو امریکی دفاعی ساز و سامان کی فروخت کا مقصد بھارتی صلاحیت کے خلا کو پُر کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، وہ کہتے ہیں کہ امریکی ساختہ ڈرونز بھارت کی طرف سے ساتھ سرحدی نگرانی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے لڑاکا طیاروں کے انجن کو مشترکہ طور پر تیار کرنے کی افادیت کا بھی حوالہ دیا۔
خیال رہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں اس بات کا عہد کیا تھا کہ بھارت خطے میں سپلائی چینز کو آزادانہ طور پر برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادار کرے گا۔
امریکہ انڈو پیسیفک خطے میں سپلائی چینز کو آزادانہ طور پر برقرار رکھنے کو اپنی اہم ترجیحات میں شامل کرتا ہے۔ حالیہ کچھ مہینوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بیجنگ کا دورہ کیا جبکہ امریکی حکام نے دونوں ممالک میں روابط کو کھلے رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین کے مطابق امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں عالمی تناظر میں جاری دیگر معاملات بھی اہم سمجھے جاتے ہیں۔ ان میں روس کی یوکرین میں جاری جنگ دونوں ممالک میں اختلافات کا باعث بھی ہے۔
بھارت کے لیے روس ایک عرصے سے قابل اعتماد اتحادی ہے جو اس کی دفاعی اور توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ۔ نئی دہلی نے یوکرین جنگ کے آغاز سے اس معاملے پر ایک غیرجانبدارانہ موقف اپنارکھا ہے۔
دوسری طرف امریکہ کہتا ہے کہ روس کی یوکرین کے خلاف جارحیت یورپ اور دنیا کے لیے خطرہ ہے اور اس جنگ میں واشنگٹن کی یوکرین کے لیے حمایت میں دوسرے ممالک کو امریکہ کا ساتھ دینا چاہیے۔
تعلقات کے اس پہلو پر بات کرتے ہوئے الزبیتھ تھریل کلیڈ کا کہنا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم مودی کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بھارت اب بھی یوکرین جنگ پر ایک درمیانی راہ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
"میرا خیال نہیں کہ وزیر اعظم مودی سے یوکرین کے معاملے پر کوئی بڑی تبدیلی متوقع تھی اور نہ ہی اس سے کسی امید کو ٹھیس پہنچی ہے ۔ بلکہ میں سمجھتی ہوں کہ دونوں ممالک (امریکہ اور بھارت) حقیقت پسندانہ انداز میں ایک دوسرے کے موقف کو سمجھتے ہیں۔"
جنوبی ایشیا میں دہائیوں سے چلتی کشیدگی کی اگر بات کی جائے تو دورے کے موقع پر جاری کیے گئے مشترکہ بیان میں امریکہ اور بھارت نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ سرحد پار دہشت گردی کو روکے۔
اس موضوع پر بات کرتے ہوئے پولی ٹیکٹ تھنک ٹینک کے محقق عارف انصار کہتے ہیں کہ یہ بات پہلے بھی امریکہ اور بھارت کے مشترکہ بیانات میں شامل رہی ہے اور انسداد دہشت گردی پر امریکہ کا یہ مسلسل موقف رہا ہے کہ تمام ملکوں کو اسے روکنے کا کہا جائے۔
تاہم، وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں یہ بیان عجیب سا لگتا ہے"کیونکہ پاکستان اس وقت اقتصادی چیلنجز، عدم استحکام اور انسانی حقوق کے انتہائی گھمبیر مسائل میں گھرا ہوا ہے۔یہ بات عیاں ہے کہ ایسے حالات میں کوئی ملک دہشت گردی سے کامیابی سے کیسے نمٹ سکتا ہے جبکہ حکومت کو اس لڑائی کے لیے ضروری استحکام اور لوگوں کی حمایت حاصل نہ ہو۔ "
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان کے حالات دہشت گردی کے پھیلاؤ کے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔
"اگر مشترکہ بیان میں پاکستان کے مسائل کا بھی ذکر ہوتا تو یہ بیان زیادہ معنی خیز ہوتا۔ لیکن اس کا دوسرے مسائل سے الگ تھلگ ذکر عجیب سا دکھائی دیتا ہے۔"