بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کا دورۂ امریکہ جہاں نئی دہلی اور واشنگٹن ڈی سی کے لیے اہمیت رکھتا ہے، وہیں یہ دورہ دنیا کے کئی ممالک کی طرح اسلام آباد میں بھی توجہ کا مرکز ہے۔
بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی منگل کی شب امریکہ کے اپنے پہلے اسٹیٹ وزٹ پر نیویارک پہنچے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی دعوت پر امریکہ کا دورہ کرنے والے وزیرِ اعظم مودی اپنی وزارتِ عظمی میں دوسری بار امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ وہ امریکہ کی کانگریس سے دو بار خطاب کرنے والے پہلے بھارتی وزیرِ اعظم ہوں گے۔
بھارتی وزیرِ اعظم کے اس دورے کے حوالے سے پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو امریکہ اور بھارت کے بڑھتے تعلقات سے کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کے بڑھتے تعلقات پاکستان کی قیمت پر نہ ہوں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور بھارت کی قربتوں اور دفاعی تعاون سے پاکستان کو مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اس کے اندرونی معاملات ہیں۔سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی مسائل کی وجہ سے پاکستان کو بہت سے چینلنجز درپیش ہیں۔
اس دورے کے حوالے سے بھارت میں بہت زیادہ توقعات کی جا رہی ہیں۔ امریکہ اوربھارت کے درمیان ہونے والے متوقع معاہدوں پر تبصرے کیے جا رہے ہیں جن میں دفاعی معاہدوں کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ ان معاہدوں کے بعد بھارت کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہو جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
’دورے کو امریکہ چین تعلقات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے‘
سابق سفارت کار اور تجزیہ کار عاقل ندیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مودی کا یہ پہلا دورہ نہیں بلکہ ٹرمپ کے دور میں امریکہ میں ہونے والے ایک جلسے میں ٹرمپ نے بھی شرکت کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس دورے کو امریکہ چین تعلقات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں امریکہ کو ایک ہی حریف کا سامنا ہے اور وہ چین ہے۔ خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے کے لیے امریکہ کو مضبوط پارٹنر کی ضرورت ہے اور بھارت بظاہر لگ رہا ہے کہ اس پارٹنر شپ میں شامل ہونا چاہتا ہے کیوں کہ اس سے بہت زیادہ اقتصادی فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق اس وقت میں یہ بات بھی سامنے آ رہی ہے کہ امریکہ سلامتی کونسل میں توسیع چاہتا ہے اور بھارت کو اس کا مستقل ممبر بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کا مطلب ہے کہ بھارت میں معاشی حالات مزید بہتر ہوں گے۔
پاکستان کے تناظر میں اس دورے کے بارے میں عاقل ندیم کا کہنا تھا کہ اس دورے سے پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ پاکستان ماضی میں امریکہ کے بہت قریب رہا، بالخصوص سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان امریکہ کے قریب تھا اور بھارت اس وقت روس کا حامی تھا۔ موجودہ وقت میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں مشکلات ہیں۔ آئی ایم ایف کی ڈیل نہیں ہو پا رہی اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس میں امریکی حکومت شامل ہے کیوں کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان چین کے کیمپ میں جا رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت بہت بڑی جمہوریت ہے اور بڑی معیشت بھی ہے۔ بھارت کی قومی طاقت بڑھتی جا رہی ہے اور اس کے مقابلے میں پاکستان ایک ایک ارب ڈالر کے لیے ادھر ادھر دیکھ رہا ہے۔ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے جہاں پرچیزنگ پاور بہتر ہو رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل میں امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات میں مزید بڑھ سکتے ہیں جس سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
’امریکہ اور بھارت معیشت پر توجہ دے رہے ہیں‘
بھارت اور امریکہ کے درمیان دفاعی تعاون کے بارے میں عاقل ندیم کا کہنا تھا کہ ان دونوں کے درمیان تعلقات کو پاکستان کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دونوں ملک اس وقت معیشت پر توجہ دے رہے ہیں۔ اس وقت بھارت کی ایئرلائنز سینکڑوں کی تعداد میں جہاز خرید رہی ہیں۔ امریکہ میں بہت بڑے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس ہیں۔ بھارت کی بہت زیادہ ڈیمانڈ ہے لہٰذا امریکہ اپنی انڈسٹری کو چلانے کے لیے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دے گا۔
SEE ALSO: 'مودی سے انسانی حقوق کے معاملات پر بات کریں'؛ ڈیموکریٹک ارکان کا بائیڈن کو خطان کے بقول پاکستان کے لیے اس وقت صرف چین ہی ایک قابلِ اعتماد پارٹنر ہے لیکن اس سے بھی گزشتہ دورِ حکومت میں تعلقات متاثر ہوئے ہیں جس سے چین کے ساتھ تعلقات میں سردِ مہری ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گے۔
’اس شراکت داری سے اسلام آباد کو کوئی مسئلہ نہیں ہے‘
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے گزشتہ ہفتے امریکی جریدے ’نیوز ویک‘ کو دیے گئے ایک انٹریو میں کہا تھا کہ امریکہ کی جانب سے بھارت کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دینے سے اسلام آباد کو کوئی مسئلہ نہیں ہے اگر یہ پاکستان کی قیمت پر نہ ہو۔ پاکستان اپنے پڑوسیوں اور خطے کے شراکت داروں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔
خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ کو پاکستان کی صورتِ حال کو سمجھنا چاہیے اور ہمیں ایسی صورتِ حال میں نہیں دھکیلا جانا چاہیے جہاں ہمیں کچھ بہت مشکل انتخاب کرنے پڑیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اہم ہیں۔ اس کی اپنی تاریخ ہے۔ اس میں کچھ ناکامیاں ہیں۔ کچھ بہت بڑی ناکامیاں ہیں لیکن پھر بھی ہم امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ان تعلقات میں مزید بہتری آئے۔
پاکستان کے مفادات کو نقصان کا اندیشہ
بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ان دونوں ممالک کی جیسی پارٹنر شپ ہے اس میں پاکستان کے لیے خیر نہیں ہے۔
SEE ALSO: امریکہ: 'اسٹیٹ وزٹ' میں کیا خاص ہوتا ہے؟ان کے بقول امریکہ کی طرف سے بھارت کو ڈرون طیارے دیے جا رہے ہیں۔ الیکٹریکل جیٹ انجن بھارت میں بنانے کی بات ہو رہی ہے۔ اس سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کو بطور سپر پاور بین الاقوامی تنازعات حل کرانے کے لیے جو کردار ادا کرنا چاہیے، امریکہ اس سے بھی صرف نظر کر رہا ہے۔ اس دورے سے امریکہ کے مفادات کا تحفظ ہو رہا ہوگا لیکن پاکستان کو ان تعلقات پر تحفظات ہونے چاہیئں۔
عبدالباسط کا کہنا تھا کہ اس دورے میں بہت سے نئے معاہدے ہونے جا رہے ہیں جن سے ہمارے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں۔
’ امریکہ کے پاکستان کے بارے میں خیالات ہر کچھ عرصے بعد بدل جاتے ہیں‘
بیجنگ اور اسلام آباد کے تعلقات کے حوالےسے عبد الباسط نے کہا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کیوں کہ امریکہ کے پاکستان کے بارے میں خیالات ہر کچھ عرصے کے بعد بدل جاتے ہیں۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اعزاز چوہدری نے اس بارے میں کہا کہ امریکہ اور بھارت کے تعلقات کا سب کو پتا ہے کہ امریکہ بھارت کو ترجیح دے رہا ہے۔ لیکن بھارت امریکہ پر مکمل اعتماد نہیں کرتا اور دیگر سپرپاورز کے ساتھ اپنے تعلقات کو کمزور نہیں ہونے دے رہا۔ یہ وقت آنے پر پتا لگے گا کہ امریکہ اور بھارت کے تعلقات کہاں تک پہنچتے ہیں۔
SEE ALSO: 'مودی سے انسانی حقوق کے معاملات پر بات کریں'؛ ڈیموکریٹک ارکان کا بائیڈن کو خطاعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اپنے اندرونی مسائل بہت زیادہ ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات میں اس وقت پاکستان کا زیادہ ذکر نہیں ہوگا کیوں کہ اس وقت یہ دونوں ممالک اقتصادی روابط پر زیادہ زور دے رہے ہیں اور انہیں بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان کو اس صورتِ حال میں اپنے اندرونی سیاسی عدم استحکام اور معاشی حالات کو بہتر بنانا ہوگا۔
پاکستان کی اندرونی مشکلات
بھارت کے آبزرو ریسرچ فاؤنڈیشن کے فیلو منوج جوشی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کافی عرصے سے ڈی لنک نظر آ رہے ہیں۔ لیکن گزشتہ سال امریکہ نے ایف 16 کے لیے 50 کروڑ ڈالر کے آلات اور پرزے فراہم کیے تھے۔ لیکن اس دورہء امریکہ میں پاکستان کے حوالے سے کوئی خاص معاملہ زیر بحث نہیں آئے گا۔
منوج جوشی کا کہنا تھا کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان جو معاہدے ہونے جا رہے ہیں ان پر بہت زیادہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کیوں کہ الیکٹریکل انجن بنانے کے حوالے سے 2010 میں بھارت کو پیشکش کی گئی تھی اور اب لائسنس کی بات ہو رہی ہے۔ بھارت کے پاس یہ انجن بنانے کی صلاحیت نہیں ہے لہذا بنانے کے بجائے بنے بنائے خریدے جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔
جوشی کا کہنا تھا کہ اس دورے سے پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ پاکستان کی مشکلات اس وقت اندرونی ہیں ۔ امریکہ کا آئی ایم ایف کے حوالے سے اثر ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی اندرونی مشکلات زیادہ اہمیت کی حامل ہیں اور پاکستان کو ان پر توجہ دینی چاہیے۔