صومالیہ کے دارالحکومت میں عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ بدھ کے روز شہر کے ایک اہم ہوٹل پر شدت پسندوں کے حملے میں کم از کم 10 افراد ہلاک جب کہ 15 سے زائد زخمی ہوئے۔
یہ حملہ موغادیشو کے ایمبسڈر ہوٹل پر ہوا جس سے چند ہی گھنٹے قبل صومالی حکام نے بتایا تھا کہ رات گئے تک جاری ایک فوجی کارروائی میں الشباب کے شدت پسند گروپ کا ایک چوٹی کا کمانڈر ہلاک ہوا۔
دلیادین جنوبی قصبے، بولا غدود میں ہلاک ہوا، جو کسمایو کے جنوبی شہر سے تقریباً 30 کلومیٹر دور واقع ہے۔
اُن کی ہلاکت کی وجوہات کے بارے میں متنازع اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ایک اعلیٰ صومالی اہل کار نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹروں نے ایک کار پر میزائل داغے جس میں دلیادین اور دوسرے دو افراد سوار تھے۔
جوبہ کے علاقے میں سکیورٹی کے وزیر، عبدالرشید جانان نے وائس آف امریکہ کی صومالی سروس کو بتایا کہ شدت پسند کو امریکی تربیت یافتہ صومالی کمانڈو یونٹ نے ہلاک کیا، جو ’دبن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس سے مراد ’آسمانی بجلی‘ ہے۔
حملے کے بارے میں امریکی حکام نے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
پینٹاگان نے بدھ کے روز بتایا کہ 27 مئی کو جنوب وسطی صومالیہ میں ہونے والے ایک دوسرے فضائی حملے میں عبداللہ حاجی داؤد کو ہلاک کیا گیا، جو الشباب کے ایک اعلیٰ فوجی کمانڈر اور حملوں کے منصوبہ ساز ہیں۔ پینٹاگان کے پریس سکریٹری پیٹر کک نے کہا ہے کہ اس وقت امریکہ اس حملے کے نتائج کا تجزیہ کر رہا ہے۔
اس حملے سے چند ہی گھنٹے قبل اہل کاروں نے صومالیہ کے کسی دوسرے مقام پر حملہ ہونے کی اطلاع دی تھی، جس میں وہ شدت پسند کمانڈر ہلاک ہوا، جو گذشتہ سال کینیا کے ’گریسا یونیورسٹی کالج‘ میں قتل عام کا ذمہ دار تھا۔
محمد محمود، جو دلیادین کے نام سے مشہور ہیں الشباب کے خطرناک ’امنیت‘ دستے اور اپریل 2015ء میں کالج پر حملہ کی منصوبہ سازی کی، جس میں 148 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے تقریباً تمام ہی طالب علم تھے۔