ایک نئی اور تفصیلی سائنسی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ سال 2019 میں کرسمس سے قبل امریکہ میں کرونا وائرس نمودار ہو چکا تھا۔ یہ لگ بھگ وہی وقت ہے جب چین کے شہر ووہان میں پہلی بار اس مہلک وبا کے مریض سامنے آئے تھے۔
امریکہ میں صحت کے حکام نے باضابطہ طور پر کرونا وائرس کے پہلے مریض کی شناخت جنوری 2020 میں کی تھی۔ یہ شخص 15 جنوری کو ووہان سے امریکی ریاست واشنگٹن پہنچا تھا اور بیماری کی علامتیں ظاہر ہونے پر 19 جنوری کو ڈاکٹر کے پاس گیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کرونا وائرس پر تحقیق کے لیے 2020 کے شروع میں 24 ہزار کے لگ بھگ امریکیوں کے خون کے نمونے لیے گئے تھے جن کے تجزیے سے یہ پتا چلا تھا کہ دسمبر 2019 میں یہ وائرس امریکہ میں موجود تھا۔
اگرچہ یہ تجزیاتی رپورٹ حتمی نہیں اور کئی ماہرین کو اس پر شکوک و شبہات بھی ہیں لیکن صحت کے وفاقی عہدے داروں میں اس بارے میں اتفاق رائے بڑھ رہا ہے کہ ممکنہ طور پر امریکہ میں اس وقت کرونا وائرس کے محدود تعداد میں مریض موجود ہوسکتے ہیں جب دنیا کو ووہان میں اس مہلک وبا کے پھوٹنے کا علم نہیں ہوا تھا۔
بیماریوں پر کنٹرول اور بچاؤ کے امریکی ادارے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن یعنی سی ڈی سی میں وائرس سے لگنے والی سانس کی بیماریوں پر تحقیق کرنے والی ٹیم کی ایک اہم رکن نیتالی تھارنبرگ کا کہنا ہے کہ یہ مطالعاتی جائزہ کافی قابل بھروسہ ہے۔ جب یہ وائرس ہمارے علم میں آیا تو اس وقت یہاں ممکنہ طور پر بہت محدود تعداد میں اس کے کیسز موجود تھے۔ لیکن اس وقت تک یہ وبا بڑے پیمانے پر نہیں پھیلی تھی اور اس کا پھیلاؤ فروری کے آخر میں شروع ہوا تھا۔
اس سے قبل سی ڈی سی کے عہدے داروں نے کہا تھا کہ امریکہ میں کرونا وائرس جنوری کے وسط اور فروری کے شروع میں پھیلنا شروع ہوا۔
سی ڈی سی کے تحت ہونے والے ایک سائنسی تجزیے میں، جس میں ریڈکراس کو دیے گئے خون کے 7000 نمونوں کا جائزہ لیا گیا، کہا گیا ہے کہ دسمبر 2019 کے وسط میں اس وائرس نے کچھ امریکیوں کو متاثر کیا تھا۔ یہ رپورٹ دسمبر 2020 میں شائع ہوئی۔
اس بارے میں تازہ ترین رپورٹ کو منگل 15 جنوری کو جریدے 'کلینیکل انفکٹی شیئس ڈیزیزز' نے آن لائن شائع کیا ہے۔ اس مطالعاتی جائزے میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے سائنس دان شامل تھے۔ جنہوں نے ملک بھر سے 24 ہزار سے زیادہ افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا۔ یہ نمونے 2020 کے پہلے تین مہینوں کے دوران اکھٹے کیے گئے تھے۔
ماہرین نےخون کے ان نمونوں میں اینٹی باڈیز کا جائزہ لیا، جو کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کا ایک ثبوت ہے۔ اینٹی باڈیز کی نشاندہی اس وائرس میں مبتلا ہونے کے دو ہفتوں کے بعد ہو جاتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خون کے 9 نمونوں میں یہ اینٹی باڈیز موجود تھیں۔ ان میں سے پانچ نمونوں کا تعلق الی نوائے سے، اور ایک ایک کا تعلق میساچوسٹس، مس سس پی، پنسلوانیا اور وسکانسن سے تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا علم ہونے سے پہلے یہ وائرس امریکہ میں موجود تھا۔
تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوویڈ-19 کے باعث بننے والے اینٹی باڈیز اور عام نزلے کی اینٹی باڈیز میں پہچان کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اس سلسلے میں کسی غلطی سے بچنے کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اور سی ڈی سی کے ماہرین کو کئی اور طرح کے ٹیسٹ کرنے پڑے۔
تاہم کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ امکان موجود ہے کہ اس مطالعے میں پازیٹو آنے والے کیسز کا تعلق کسی اور قسم کے وائرس سے ہو اور وہ موجودہ وبا سے تعلق نہ رکھتے ہوں۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے ماہرین نے ان 9 پازیٹو کیسز والے افراد سے رابطہ نہیں کیا اس لیے یہ معلوم نہیں ہے کہ ان افراد نے خون کا نمونہ دینے سے قبل بیرون ملک سفر کیا تھا یا نہیں۔ تاہم یہ معلوم ہے کہ ان میں سے کوئی بھی نیویارک یا سیاٹل کے قریب نہیں رہتا تھا، جہاں امریکہ میں بیرون ملک سے آنے والے پہلے پہل کرونا وائرس کے مریض باقاعدہ طور پر شناخت کیے گئے تھے۔