دنیا کی سات بڑی معاشی طاقتوں کے سربراہان نے کرونا وبا اور اس کے اثرات سمیت معیشت، چین اور روس کی جانب سے درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
برطانیہ کی میزبانی میں ہونے والا تین روزہ جی سیون اجلاس اتوار کو اختتام پذیر ہوا ہے جس کے دوران تمام رہنماؤں نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جسے 'کاربس بے ڈکلیریشن' کا نام دیا گیا ہے۔
عالمی رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ وہ کرونا وائرس کی ایک ارب خوراکیں دنیا کو فراہم کریں گے جن میں سے آدھی خوراکیں امریکہ مہیا کرے گا۔
دوسری جانب عالمی ادارۂ صحت نے کہا ہے کہ دنیا کو اس وقت 11 ارب خوراکوں کی ضرورت ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق عالمی رہنماؤں نے کرونا وائرس کے انسداد کے لیے ویکسین کی فراہمی، آب و ہوا کی تبدیلی، انسانی حقوق اور تجارت کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کا وعدہ کیا ہے۔
اجلاس کے اختتام پر میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا کہ جی سیون اجلاس غیر معمولی اور نتیجہ خیز ملاقات تھی جس میں کرونا وائرس سے لڑنے اور عالمی معیشت کی بحالی کے معاملات زیرِ غور آئے جب کہ چین کے رویے کی وجہ سے اس کا نام لے کر بات کی گئی ہے۔
صدر بائیڈن نے جی سیون سربراہان کے معاہدے پر کہا کہ یہ کرونا وبا کے خاتمے اور مستقبل میں اس طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کے علاوہ 12 ٹریلین ڈالر کی مدد سے وبا سے متاثر ہونے والی معیشت کی بحالی کا عزم ظاہر کرتا ہے۔
اجلاس میں میزبان برطانیہ کے علاوہ امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی اور جاپان کے سربراہانِ مملکت نے شرکت کی جب کہ جنوبی کوریا، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے رہنماؤں نے اعزازی طور پر شرکت کی۔ بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی اجلاس میں آن لائن شریک تھے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اور دیگر عالمی تنظیموں کے رہنما بھی اجلاس میں شریک تھے۔
اجلاس کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق تمام رہنماؤں نے کرونا وبا کے دنیا بھر میں پھیلنے کی وجہ جاننے کی ضرورت پر زور دیا۔
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ اجلاس کے تمام شرکا اس بارے میں واضح طور پر متفق ہیں کہ یہ اختتام نہیں، کرونا کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ جی سیون اجلاس میں چین کا تذکرہ کرنے پر وہ تنظیم کے شکر گزار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین کو انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی اصولوں، انسانی حقوق اور شفافیت کے معاملات پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
آخری مرتبہ جی سیون اجلاس کے دوران چین کا نام نہیں لیا گیا تھا۔ لیکن اس بار صدر بائیڈن کے بقول عالمی رہنماؤں کے اجلاس میں باقاعدہ طور پر چین کا نام لیا گیا ہے۔
چین کو سنکیانگ صوبے میں ایغور مسلم اقلیت کے خلاف کریک ڈاؤن اور ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حامیوں کی تحریک کو دبانے کے الزامات کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق چین نے جی سیون ممالک پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ سیاسی ہیرا پھیری کر رہے ہیں۔
برطانیہ میں موجود چین کے سفارت خانے نے پیر کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ جی سیون ممالک نے سنکیانگ کے معاملات کو اٹھا کر چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوشش کی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے جی سیون اجلاس کے اعلامیے میں بیجنگ سے متعلق من گھڑت، افواہوں اور الزامات پر مبنی بیان شامل ہے۔
سفارت خانے کے مطابق کرونا وبا اب بھی دنیا بھر میں موجود ہے جس کی وجوہات جاننے کے لیے اسے سیاسی رنگ دینے کے بجائے دنیا بھر کے سائنس دانوں کو کوششیں کرنی چاہیے۔