پاکستان کی وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ مرکزی بینک، اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں حکومتی کردار کو مزید کم کر کے بینک کو مکمل طور پر خود مختار بنایا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے بل پارلیمان میں جلد پیش کیے جانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
وزیرِ اعظم کے مشیر برائے خزانہ اور ریونیو عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ ان ترامیم سے اسٹیٹ بینک آزادانہ ماحول میں شرح سود کا تعین کرسکے گا۔ افراطِ زر پر کنٹرول کی ذمے داری نبھا سکے گا اور ساتھ ہی کرنسی ایکسچینج سے منسلک معاملات کو بھی دیکھے گا جس میں ان کے مطابق حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہو گا۔
اس کے علاوہ گورنر اسٹیٹ بینک کی تقرری کو پانچ سال کے لیے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ انہیں اپنی مدت کا مکمل تحفظ حاصل ہو۔ اسی طرح نئی ترامیم سے حکومت کی جانب سے اسٹیٹ بینک سے قرضوں اور گارنٹی کے حصول کا سلسلہ بھی رُک جائے گا۔
عبدالحفیظ شیخ کے مطابق ماضی میں اس کا بہت غلط استعمال کیا گیا جس سے قرضوں کا بوجھ کئی گنا بڑھ گیا۔ اس لیے اب حکومت مرکزی بینک کی جانب دیکھنے کے بجائے اپنے ذرائع اور کوششوں سے کمرشل مارکیٹس کو استعمال میں لا کر فنڈنگ حاصل کرے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
'اسٹیٹ بینک کو پارلیمان کے سامنے جواب دہ کیا جا رہا ہے'
حکومتی فیصلے کے تحت مانیٹری اور فسکل کوآرڈنیشن بورڈ کو بھی ختم کیا جارہا ہے اور اب مرکزی بینک سے رابطے کے لیے حکومت خصوصی کمیٹیاں تشکیل دے گی۔
مشیرِ خزانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کو پارلیمان کے سامنے جواب دہ کیا جا رہا ہے جو اس سے پہلے قانون میں نہیں تھا۔ حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ان فیصلوں کا مقصد ملک کے اقتصادی اداروں کو مضبوط بنانا ہے تاکہ وہ 21 ویں صدی کے تقاضوں کے تحت چل سکیں۔
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا مزید کہنا تھا کہ خود مختاری کو جواب دہی کے ساتھ توازن میں لایا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے اسٹیٹ بینک کو اسٹرکچرل اور آپریشنل آزادی اور خودمختاری دی گئی ہے۔
حکومت کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے اہداف دیے جائیں گے۔ لیکن یہ کام کیسے کرنا ہے اس پر عمل درآمد کی ذمے داری گورنر اسٹیٹ بینک کی ہو گی اور وہ اس معاملے پر حکومت کو جواب دہ ہوں گے۔
'اسٹیٹ بینک کی حکومتی اثر سے آزادی ممکن نہیں'
ماہر معاشیات اور بینکنگ سے جُڑے تجزیہ کار اس فیصلے کو سراہتے تو نظر آتے ہیں لیکن ان کے خیال میں حقیقی طور پر مرکزی بینک کو حکومتی کنٹرول سے مکمل آزادی دینا ممکن نہیں۔
سابق سینئر بینکر اور معاشی تجزیہ کار شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت کیا جا رہا ہے۔ کیوں کہ اُن کے بقول آئی ایم ایف یہ سمجھتا ہے کہ اسٹیٹ بینک وزارتِ خزانہ سے ہر معاملے میں رائے لیتا ہے۔
شاہد صدیقی کے بقول سابق وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے اسٹیٹ بینک پر دباؤ ڈال کر پاکستانی روپے کی قدر کو جان بوجھ کر مصنوعی طور پرمستحکم رکھا۔ لیکن اسٹیٹ بینک کے ایکٹ کے تحت یہ صرف اسٹیٹ بینک کی ذمے داری ہے کہ وہ روپے کی قدر کو کنٹرول کرے۔ اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل بنتا ہی نہیں۔
اُن کے بقول ماضی میں یہ ساری مداخلت ہوتی رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو خود مختاری اسٹیٹ بینک کو حاصل ہے وہ بھی ماضی میں مرکزی بینک کئی مواقع پر قربان کرتا رہا۔ ان کے خیال میں اس کی وجہ گورنر اسٹیٹ بینک کا اپنی نوکری بچائے رکھنا اور اس میں مزید توسیع کروانا رہا ہے۔
شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مرکزی بینک خود بھی حکومت کی جانب سے ایسی مداخلت برداشت کرتا رہا اور اس کی وجہ یقینی طور پر گورنر اسٹیٹ بینک کا تقرر میرٹ پر نہ ہونا تھا اور یہ باتیں ایک کھلا راز ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون تو پہلے بھی بہت حد تک اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دیتا ہے۔ اور اس میں مزید گنجائش بھی موجود ہے لیکن حقیقی طور پر ایسا ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
اسی طرح شاہد حسن صدیقی کے مطابق کرونا کے دوران شرح سود کم کرنا بھی اسٹیٹ بینک کا نہیں بلکہ حکومت کا سیاسی فیصلہ تھا جس سے ان لوگوں کو فائدہ ہوا جنہوں نے بینکوں سے قرضے لے رکھے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ملک میں 75 ہزار اکاؤنٹ ہولڈرز نے قرضے لے رکھے ہیں اور ان میں سے بینکوں کے قرضے کا 88 فی صد جو سات ہزار ارب روپے بنتا ہے ان لوگوں نے لے رکھے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
'اسٹیٹ بینک کی خودمختاری برقرار رکھنا پیچیدہ مسئلہ ہے'
اس طرح ایک اور ماہر معاشیات اور بی ایم اے کیپیٹل مینجمنٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سعد ہاشمی کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ ریاست ہی کا ادارہ ہے اور اس کے گورنر کا تقرر بھی صدرِ پاکستان ہی کرتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب اسے کافی حد تک آپریشنل آزادی بھی حاصل ہے۔
ماہرین کے بقول ماضی میں حکومتیں کم آمدنی پر اسٹیٹ بینک سے بے تحاشہ قرضے دینے کا کہتی رہی ہیں اور اسٹیٹ بینک کو حکومت کا یہ حکم ماننا پڑتا تھا۔ لیکن اب یہ سلسلہ رُک سکے گا۔
اسی طرح ان کی رائے میں شرح سود بڑھانے میں بھی حکومت کی دخل اندازی ہوتی رہی تاکہ معیشت کی ترقی کی رفتار پر اثر نہ پڑے۔ اب اگر یہ اختیار صرف اسٹیٹ بینک استعمال کرے گا تو اس سے مہنگائی کو تو کنٹرول کیا جاسکے گا لیکن ہوسکتا ہے کہ اس سے معیشت کی ترقی کی کم رفتار پر مزید اثر پڑے۔