محکمہ استغاثہ نامزد ملزمان کے خلاف عدالت میں فردِ جرم پیش کیے جانے تک موصول ہونے والی شکایات کے بارے میں عموماً اس نوعیت کا بیان جاری نہیں کرتا۔
واشنگٹن —
مصر کے محکمہ استغاثہ نے کہا ہے کہ اسے ایسی کئی شکایات ملی ہیں جن میں برطرف صدر محمد مرسی اور ان کی اسلام پسند جماعت 'اخوان المسلمین' کے سینئر رہنمائوں پر جاسوسی، مظاہرین کو تشدد پر بھڑکانے اور معیشت کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
محکمہ استغاثہ نے ہفتے کو جاری کیے جانے والے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ان شکایات کی تحقیقات کر رہا ہے تاکہ اس بارے میں ابتدائی معلومات اکھٹی کرکے ملزمان سے تفتیش کی جاسکے۔
لیکن بیان میں استغاثہ کے وکلا نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں یہ شکایات کس نے بھیجی ہیں۔
خیال رہے کہ مصر میں رائج قانونی نظام کے تحت وکلائے استغاثہ پولیس یا کسی بھی عام فرد کی جانب سے درج کرائی جانے والی شکایات کی تفتیش کرنے کے مجاز ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ استغاثہ کو مذکورہ الزامات کی تحقیقات کے بعد محمد مرسی اور اخوان کے دیگر رہنمائوں کے خلاف ابتدائی 'چارج شیٹ' تیار کرنے میں کئی ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ عموماً محکمہ استغاثہ نامزد ملزمان کے خلاف عدالت میں فردِ جرم پیش کیے جانے تک موصول ہونے والی شکایات کے بارے میں اس نوعیت کا بیان جاری نہیں کرتا۔
محکمے کے بیان میں 'اخوان المسلمین' کے جن رہنمائوں کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ان میں تنظیم کے رہبرِ اعلیٰ محمد بدیع اور اخوان کے سیاسی دھڑے کے نائب سربراہ اعصام العریان بھی شامل ہیں۔
مصری فوج نے تین جولائی کو صدر محمد مرسی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جس کے بعد سے برطرف صدر فوج کی تحویل میں ہیں جنہیں کسی نامعلوم مقام پر قید رکھا گیا ہے۔
مصری حکام فوجی اقدام کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں محمد بدیع اور اعصام العریان سمیت اخوان کے کئی رہنمائوں کے خلاف پہلے ہی وارنٹ گرفتاری جاری کرچکے ہیں۔
امریکہ اور کئی دیگر مغربی ممالک نے مصر کی عبوری حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ محمد مرسی کو رہا کرے اوراخوان کے رہنمائوں اور کارکنوں کے خلاف جاری ملک گیر کریک ڈائون روکے۔
مصری فوج کے افسران کا کہنا ہے کہ ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف لبرل اور سیکولر حلقوں کے احتجاج کے بعد فوج کے پاس سیاست میں مداخلت کرنے اور صدر کو برطرف کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔
لیکن عالمِ عرب کی سب سے منظم اسلام پسند جماعت 'اخوان المسلمین' نے فوجی اقدام کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اس کے خلاف پرامن مزاحمت کرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور تنظیم کے ہزاروں کارکن گزشتہ 10 روز سے دارالحکومت قاہرہ کے ایک چوک پر دھرنا دیے ہوئے ہیں۔
محکمہ استغاثہ نے ہفتے کو جاری کیے جانے والے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ان شکایات کی تحقیقات کر رہا ہے تاکہ اس بارے میں ابتدائی معلومات اکھٹی کرکے ملزمان سے تفتیش کی جاسکے۔
لیکن بیان میں استغاثہ کے وکلا نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں یہ شکایات کس نے بھیجی ہیں۔
خیال رہے کہ مصر میں رائج قانونی نظام کے تحت وکلائے استغاثہ پولیس یا کسی بھی عام فرد کی جانب سے درج کرائی جانے والی شکایات کی تفتیش کرنے کے مجاز ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ استغاثہ کو مذکورہ الزامات کی تحقیقات کے بعد محمد مرسی اور اخوان کے دیگر رہنمائوں کے خلاف ابتدائی 'چارج شیٹ' تیار کرنے میں کئی ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ عموماً محکمہ استغاثہ نامزد ملزمان کے خلاف عدالت میں فردِ جرم پیش کیے جانے تک موصول ہونے والی شکایات کے بارے میں اس نوعیت کا بیان جاری نہیں کرتا۔
محکمے کے بیان میں 'اخوان المسلمین' کے جن رہنمائوں کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ان میں تنظیم کے رہبرِ اعلیٰ محمد بدیع اور اخوان کے سیاسی دھڑے کے نائب سربراہ اعصام العریان بھی شامل ہیں۔
مصری فوج نے تین جولائی کو صدر محمد مرسی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جس کے بعد سے برطرف صدر فوج کی تحویل میں ہیں جنہیں کسی نامعلوم مقام پر قید رکھا گیا ہے۔
مصری حکام فوجی اقدام کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں محمد بدیع اور اعصام العریان سمیت اخوان کے کئی رہنمائوں کے خلاف پہلے ہی وارنٹ گرفتاری جاری کرچکے ہیں۔
امریکہ اور کئی دیگر مغربی ممالک نے مصر کی عبوری حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ محمد مرسی کو رہا کرے اوراخوان کے رہنمائوں اور کارکنوں کے خلاف جاری ملک گیر کریک ڈائون روکے۔
مصری فوج کے افسران کا کہنا ہے کہ ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف لبرل اور سیکولر حلقوں کے احتجاج کے بعد فوج کے پاس سیاست میں مداخلت کرنے اور صدر کو برطرف کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔
لیکن عالمِ عرب کی سب سے منظم اسلام پسند جماعت 'اخوان المسلمین' نے فوجی اقدام کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اس کے خلاف پرامن مزاحمت کرنے کا اعلان کر رکھا ہے اور تنظیم کے ہزاروں کارکن گزشتہ 10 روز سے دارالحکومت قاہرہ کے ایک چوک پر دھرنا دیے ہوئے ہیں۔