روس کی میزبانی میں افغان امن کانفرنس، حکومتی اور طالبان وفود ماسکو پہنچ گئے

فائل فوٹو

روس کی میزبانی میں 18 مارچ کو ہونے والی افغان امن کانفرنس میں شرکت کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے وفود بدھ کو ماسکو پہنچ گئے۔ کانفرنس کا مقصد افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کو تیز کرنا ہے۔

افغان حکومت کے وفد میں اعلیٰ مفاہمتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ، سابق صدر حامد کرزئی اور اعلٰی مذاکرات کار معصوم ستنکزئی سمیت دیگر کئی افغان سیاسی رہنما شامل ہیں۔

اعلیٰ مفاہمتی کونسل کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان وفد روس میں افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ہونے والی 'ماسکو کانفرنس' میں شرکت کرے گا۔

وائس آف امریکہ کہ افغان سروس کی رپورٹ کے مطابق طالبان کا 10 رکنی وفد بھی ماسکو میں ہونے والی کانفرنس میں شریک ہو گا۔ جب کہ اس وفد کی قیادت طالبان کے اعلیٰ مذاکرات کار ملا عبد الغنی برادر کریں گے۔

افغان اعلیٰ مفاہمتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کانفرنس کی کامیابی کی امید ظاہر کی۔ عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں طالبان کے وفد اور میزبان ملک کے حکام سے بھی تبادلۂ خیال ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد دوحہ میں جاری بین الافغان مذاکرات میں پیش رفت، افغانستان میں تشدد میں کمی اور افغان تصفیے کے لیے راہیں تلاش کرنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کانفرنس میں ان راہوں اور طریقۂ کار کو زیرِ بحث لایا جائے گا جس سے ایک خودمختار، پُر امن اور خؤد کفیل افغانستان کی راہ ہموار ہو جہاں دہشت گردی اور منشیات سے متعلق جرائم نہ ہوں۔

انہوں نے روس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے پڑوسی ممالک کا بھی قیامِ امن کی کوششوں میں معاونت کا شکریہ ادا کیا۔

دوسری جانب امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے اپنے وفد کے ہمراہ کابل کا دو روزہ دورہ مکمل کیا ہے۔ اس دورے کا مقصد بین الافغان امن عمل میں پیش رفت کو تیز کرنا تھا۔ یہ دورہ افغانستان میں مستقل جنگ بندی اور تنازع کے سیاسی تصفیے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

افغانستان میں امریکہ کے سفارت خانے کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ زلمے خلیل زاد نے دورے میں صدر اشرف غنی، مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سمیت دیگر کئی سیاسی رہنماؤں، خواتین کے حقوق کی کارکنان سے ملاقات کی۔

زلمے خلیل زاد کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ کابل کے دو روزہ دورے میں افغانستان کے صدر اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ سمیت دیگر رہنماؤں سے افغان عمل میں ہونے والی پیش رفت پر تبادلۂ خیال ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی شخصیات نے امن عمل میں پیش رفت میں تیزی کی حمایت کی۔ جب کہ افغانستان میں مستقل جنگ بندی اور تنازعے کے سیاسی تصفیے کے لیے آنے والے دنوں میں ہونے والی بین الاقوامی سرگرمیوں میں خود یا اپنے وفود کی شرکت کی یقین دہانی کرائی۔

خیال رہے کہ پیر کو امریکہ کی محکمۂ خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ زلمے خلیل زاد ماسکو میں افغانستان سے متعلق ہونے والی کانفرنس میں شریک ہوں گے۔

منگل کو امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے کہا تھا کہ افغان امن عمل میں تیزی لانے کے لیے ماسکو میں ہونے والی کانفرنس قطر میں طالبان اور افغان حکومت میں جاری مذاکرات کے متبادل نہیں ہے۔

محکمہ خارجہ کی ترجمان جالینا پورٹر کا میڈیا بریفنگ میں کہا تھا کہ ماسکو میں ہونے والی کانفرنس دوحہ میں جاری مذاکرات کے متبادل نہیں ہو سکتی۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغان امن عمل کی تاریخ پر ایک نظر

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے بغیر وہ اپنے پیش رو کو اختیار منتقل کرنے پر تیار نہیں ہو سکتے۔

کابل میں منگل کو افغانستان کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات اور اصلاحات سے متعلق کانفرنس سے خطاب میں اشرف غنی نے کہا کہ خطے کے ممالک اور افغانستان کے پڑوسیوں کی معاونت کے بغیر افغانستان میں امن و استحکام ممکن نہیں ہے۔

واضح رہے کہ روس نے افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے کے موضوع پر 18 مارچ کو کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس سلسلے میں اس نے افغان رہنماؤں اور طالبان کے علاوہ امریکہ، چین اور پاکستان کو شرکت کی دعوت بھی دی تھی۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے ماسکو میں ہونے والے کانفرنس میں افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کی قیادت میں پاکستانی وفد شرکت کرے گا۔

ماسکو کانفرنس میں شرکت سے پہلے گزشتہ ہفتے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق نے ایران کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف سے ملاقات میں افغان امن عمل کے بارے میں تبادلہ خیال کیا اور افغانستان کے تنازع کے پرامن حل کے لیے دونوں ملکوں کے ممکنہ کردار کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان اپنے مغربی ہمسایہ ملک افغانستا ن میں قیام امن کے لیے ہونے والی علاقائی کوشش کی حمایت کرتا ہے ۔ گزشتہ ماہ روس کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ضمیر کابلوف سے اسلام آباد میں ملاقات کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں سیاسی تصفیے کے چار ممالک کی کانفرنس کی حمایت کرتا ہے۔

ماسکو میں افغانستان سے متعلق اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حال ہی میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے افغان صدر اشرف غنی کو ایک خط لکھا تھا۔

اس خط میں افغانستان میں قیام امن کے لیے اقوامِ متحدہ کی میزبانی میں بین الاقوامی کانفرس بلانے کے ساتھ ساتھ ترکی میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان اجلاس کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ تاکہ افغان امن عمل میں تیزی لائی جا سکے۔

افغانستان میں قیامِ امن اور سیاسی تصیفے کے لیے امریکہ کے ساتھ ساتھ روس ایک ایسے وقت میں متحرک ہوا ہے جب فروری 2020 کو امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی یکم مئی ڈیڈ لائن میں چند ہفتے ہی باقی ہیں۔

دوسری جانب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہونے والے بین الافغان مذاکرات میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ جب کہ کہا جا رہا ہے کہ طالبان تشدد میں کمی اور جنگ بندی پر تیار نہیں ہیں۔