بتیس برس کی دعا نے نوزائدہ بچی کو چھاتی سے لگا رکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’پہلے تو میں چوکی پر برقعہ اتارنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ لیکن، پھر مجھے سپاہیوں نے کئی بار برقعہ اتارنے کے لیے کہا۔ ایک لمحے کے لیے میں نے یہ سوچا: آخر اِسے پہننے کی ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘
نومبر میں جب عراقی افواج نے موصل کے کچھ حصے واگزار کرائے, فوج نے خواتین سے تقاضا کیا کہ وہ برقعے کا استعمال بند کر دیں، جس سے اُن کا چہرہ چھپ جاتا ہے، چونکہ داعش کے شدت پسند خواتین کا روپ دھار کر برقعے کا سہارا لیتے ہیں۔
دو ہفتے سے بھی کم عرصہ قبل سرکاری طور پر یہ پابندی لگائی گئی اور فوجیوں نے یہ پیغام عام کیا کہ اب برقعے کی اجازت نہیں ہوگی۔
کئی بار ایسا ہوا کہ برقعہ اوڑھے، داعش کے شدت پسند خودکش جیکٹ پہن کر شہر سے بھاگ نکلنے والے مہاجرین کے جھرمٹ میں پائے گئے، جنھیں عراقی افواج نے قریب آتے ہوئے پکڑا۔ عراقی فوج اُن شدت پسندوں کو بھی تلاش کر رہی ہے جنھوں نے لڑائی تو بند کردی ہے، لیکن وہ ’سلیپر سیلز‘ کا کھیل دکھانے کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔
حسن بشر عباس، عراقی افواج کے فخریہ ’سواٹ‘ دستے سے وابستہ ہیں۔ اُن کے بقول، ’’وہ خواتین کا لباس پہنتے ہیں، اور جب لوگ اُنھیں پہچان لیتے ہیں کہ اُن کی چال ڈھال مردوں والی نہیں، تو وہ دوسرے مضافات کی جانب چلے جاتے ہیں‘‘۔
سامنے والی سڑک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’چند ہی ہفتے قبل، ہم نے یہاں سے دو شدت پسندوں کو گرفتار کیا تھا، جنھوں نے برقعہ اوڑھ رکھا تھا‘‘۔
متعدد مقامی لوگ عائد کردہ پابندی کے حامی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ تحفظ کو یقینی بنانے کی ایک احتیاطی تدبیر ہے، ایسے میں جب خودکش بم حملہ آور مشرقی موصل کو نشانہ بنا رہے ہیں، اور مغربی موصل میں داعش کے شدت پسند عراقی افواج سے بچ نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب ’وائس آف امریکہ‘ نے اُن کے اِس اقدام کے بارے میں پوچھا، تو اُن کا کہنا تھا کہ ’یہی بہتر ہے‘‘۔