موصل کو واگزار کرانے کے لیے جاری لڑائی خونریز اور ساتھ ہی سست روی کا شکار ہے۔ عراقی فوجوں اور شہری آبادی کی یہی رائے ہے۔
عراقی افواج نے گذشتہ اکتوبر میں شہر کو خالی کرانے کی کارروائی کا آغاز کیا، جو ملک بھر کے دیہی علاقے میں واقع داعش کا سب سے مضبوط ٹھکانہ خیال کیا جاتا ہے۔ تب سے عراقی فوجوں کو راکیٹ اور بھاری دہانے کی گولہ باری، خودکش بم حملوں اور گھات لگا کر نشانہ بنانے کے واقعات کے علاوہ غیر روایتی چھوٹے ڈرون حملوں کا سامنا ہے۔
مشرقی موصل کو خالی کرانے کی کئی ماہ سے جاری رہنے والی کارروائی کے بعد اب عراقی افواج شہر کے مغربی نصف علاقے پر دھیان مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ اب زیادہ ضروری سوال یہ ہے آیا داعش کے لڑاکوں کو واقعی باہر نکال دیا گیا ہے۔
اِس ضمن میں اصل تشویش کا معاملہ یہ ہے آیا موصل پر عمل داری کس طرح بحال ہوگی؛ فرقہ وارانہ گروہوں کے ساتھ مصالحت کیسے ہوگی؛ ساتھ ہی، یہ سوال کہ داعش کا کیا بنے گا۔
اس سے قبل، اِسی ہفتے، امریکی اہل کاروں نے، جِن میں وزیر دفاع جِم میٹس بھی شامل ہیں، عراق میں اخباری نمائندوں پر واضح کیا کہ موصل فتح ہونے کے بعد ملک سے 9000 سے زائد امریکی اور اتحادی افواج کا فوری انخلا کیسے ہوپائے گا۔
لیفٹیننٹ جنرل اسٹیفن ٹاؤن سینڈ، مشترکہ ٹاسک فورس کے کمانڈر ہیں، جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ داعش کے انسداد پر مامور اتحادی فوجوں کو مربوط طریقے سے استعمال میں لائیں۔ اُنھوں نے بغداد میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ، ’’میرے خیال میں حکومتِ عراق محسوس کرتی ہے کہ یہ انتہائی پیچیدہ لڑائی ہے اور اُنھیں موصل سے آگے کے لیے بھی اتحاد کی اعانت کی ضرورت ہوگی‘‘۔
ایک اخباری کانفرنس میں، میٹس نے کہا کہ ’’عراقی سیاسی قیادت یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ اُنھیں کیا مسئلہ درپیش ہے اور اتحاد کی کیا اہمیت ہے‘‘۔
اتحادی طاقت
موصل کی لڑائی میں اتحاد کی اہمیت کو پرکھا جا چکا ہے۔ اتحاد نے دولتِ اسلامیہ کے اہداف پر ہزاروں بار فضائی حملے کیے ہیں جب کہ لاکھوں کی تعداد میں مقامی بَری فوجوں کو تربیت فراہم کی ہے، جِن میں عراقی اور کُرد فوجیں شامل ہیں۔
مغربی موصل کے کثیر آبادی والے علاقے کی جانب پیش قدمی کے دوران، اتحادی ’’مشیر‘‘ ہراول دستے کا کام بجا لاتے ہیں، خاص طور پر جب معاملہ براہ راست فضائی حملوں کا ہو، تاکہ شہری آبادی کا نقصان کم سے کم ہو۔
موصل میں شکست کے بعد، ایسا نہیں ہوگا کہ داعش یکایک ختم ہو جائے۔ اور اتحاد کی انسدادِ دہشت گردی کی مہارت بھی خاص اہمیت کی حامل رہے گی۔
کُرد انٹیلی جنس اہل کاروں کا خیال ہے کہ دہشت گرد جہادی گروپ خودکش بم حملوں کا لامتناہی سلسلہ جاری رکھیں گے، اور وہ دور افتادہ اور دشوار گزار خطوں کو اڈوں کے طور پر استعمال کریں گے، جن میں عراق کا شمال مشرقی ہمرین کا پہاڑی علاقہ شامل ہے۔
اُن کے خیال میں گذشتہ چند ماہ کے دوران، داعش کے ہزاروں نہ سہی تو سینکڑوں لڑاکے موصل سے بچ نکلے ہیں، جب کہ دہشت گرد گروپ کے رہنما، ابو بکر البغدادی کے اثر و رسوخ کو کم نہیں کیا جا سکتا۔
ظالمانہ بے آہنگ حربی سرگرمیاں جاری رہیں گی، اور بدترین صورت اختیار کر سکتی ہیں، اگر عراق ملک کے مسابقت کے شکار فرقوں سے مصالحت پر نہیں پہنچ پاتا۔