کلیسائے روم سے ناراضگی کے بعد مسلمان ہونے والی آئرش گلوکارہ کی موت پر لاکھوں مداح غمگین

آئرش گلوکارہ سینیڈ او کونر کو دنیا بھر میں لاتعداد لوگوں نے ان کی تدفین کے موقع پر خراجِ عقیدت پیش کیا ۔ منگل کو ان کی آخری رسومات میں آئرلینڈ کے وزیرِ اعظم لیو وراڈکر اور صدر مائیکل ہگنس سمیت گلوکاری کی دنیا کی کئی نامور شخصیات نےشرکت کی۔

تدفین کے لیے قبرستان کی طرف جانے والا وسیع جلوس ان کےعقیدت مندوں پر ان کی زندگی کے وسیع اثرات کی عکاسی کر رہا تھا جو ان کی مسحور کن آواز اور جذباتی گہرائی سے متاثر ہوئے ۔

سوشل میڈیا پر ان گنت پوسٹوں میں پرستاروں اور سوگواروں کے ہجوم میں ان کے جنازے کے جلوس کے مناظر پوسٹ کیے گئے۔

ایک ونٹیج کیمپر وین کی چھت پر نصب اسپیکرز پرگلوکار ہ کے کچھ مشہور گانوں کے ساتھ ساتھ ان کے ہیرو باب مارلی کے گانے کو پلے کیا جارہا تھا، جب جلوس ان کے سابق گھر کے باہر رکا تو تالیوں کی لگاتار گونج سے اس کا استقبال کیا گیا۔

سیکڑوں لوگوں نے ڈبلن کے جنوب میں سمندر کے کنارے واقع گاؤں 'بری' میں واقع اس گھر کی زیارت کی جہاں او کونر 15 سال تک مقیم رہیں ،وہ حال ہی میں لندن منتقل ہوئی تھیں جہاں وہ گزشتہ ماہ اپنے گھر میں مردہ پائی گئیں۔

اوکونر کے گھر کے باہر ہجوم میں موجود سیمون جارج نے کہا "او کونراپنی تمام تر صلاحیتوں اور خوبصورتی کے ساتھ ہر ا یک کی پسندیدہ تھیں۔انہوں نے اس وقت ہمیں آواز دی جب ہم وہ سب نہیں کہہ پا رہے تھے جو ہم پر گزر رہی تھی ۔ میرے خیال میں وہ آئرش لوگوں کے لیے ایک بہت مختلف چیز کی علامت ہیں۔"

سینیڈ او کونر نے کب اسلام قبول کیا؟

O'Connor، جس کی پرورش کیتھولک گھرانے میں ہوئی اور 1992 میں مقبول شو "سیٹر ڈےنائٹ لائیو " میں پوپ جان پال دوم کی تصویر پھاڑ دینے کے بعد ایک متنازع شخصیت بن گئی تھیں، انہوں نےبعد میں اسلام قبول کر لیا تھا۔

’مسلم سسٹرز آف آئیر‘ ڈبلن میں ایک چیریٹی ہے اس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' پر پوسٹ کیا"ہمیں سسٹر سینیڈ او کونر کی نماز جنازہ میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ خواتین کے حقوق میں سرگرم اور تبدیلی کی حامی تھیں، اللہ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔"

اس پوسٹ پر ان کا اسلامی نام بھی نظر آرہا تھا جو پہلے "شہدا" تھا اور بعد میں انہوں نے اسے بدل کر "صداقت‘ رکھ لیا۔

اسلامک سنٹر آف آئرلینڈ کے شیخ ڈاکٹر عمر القادری نے انہیں الوداع کہتے ہوئے اسے "ایک ایسی قابلِ ذکر روح کو الوداع کہنے سے تعبیر کیا" جس نے ہم سب کو چھو لیا۔" انہوں نےکہا" او کونر نے اپنے آرٹ کے ذریعے متنوع روحوں کو جوڑا ہے۔"

امام نے آن لائن پوسٹ میں گلوکارہ کی یاد میں لکھی گئی تحریر میں کہا کہ ایک ایسی آواز جس نے نوجوانوں کی ایک نسل کو منتقل کیا۔سینیڈ نے سکون بانٹتے ہوئے، دنیا بھر کے بے شمار لوگوں کو خوشی دی۔

ایک گروپ جو O'Connor کے سابق گھر کے باہر ایک گھنٹے سے زیادہ انتظار کر رہا تھا، ان کے گانے گارہا تھا اور اس کار کی کھڑکیوں سے تصویریں کھینچ رہا تھا جہاں ان کا تابوت نیلے ہائیڈرینجاس اور گلاب کے پھولوں سے ڈھکا ہوا تھا ۔

گلوکارہ کی نوجوانی کی سیاہ اور سفید تصویر جس میں وہ اپنے شیو کیےسر کے ساتھ ،جو ان کا ایک طرح سے ٹریڈ مارک تھا، مسکرا رہی تھیں اور ان کی بڑی بڑی آنکھیں عقبی شیشےسے دیکھی جا سکتی تھیں۔

او کونر نے جو غیر معمولی جذباتی رینج کی مالک ایک "ملٹی آکٹیو میزو سوپرانو " تھیں اپنے کریئر کا آغاز ڈبلن کی سڑکوں پر گانا گا کر کیا اور جلد ہی بین الاقوامی شہرت حاصل کر لی۔

وہ 1990 میں Prince’s ballad کے کور "نتھنگ کمپیئرز 2 یو" کے ساتھ ایک ایسی سنسنی خیز فن کار بن گئیں ,جنہوں نے یورپ سے آسٹریلیا تک مقبولیت کی فہرست اعلیٰ مقام حاصل کیا تھا۔

ان کے پرستاروں نے ان کے بہت سے گانوں کو سوشل میڈیا پر شئیر کیا ہے۔

وہ رومن کیتھولک چرچ کی سخت ناقد تھیں اور انہوں نے اس سے بہت پہلے جب کلیسائے روم پر جنسی استحصال کے الزامات کو بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا اور چرچ نے آخر کار معافی مانگی، ان چیزوں کی نشان دہی کرتے ہوئےچرچ کو دشمن قرار دیاتھا۔

جب ان کا نوعمر بیٹا شین گزشتہ سال خودکشی سے مر گیا تھا تو او کونر نے ٹوئٹ کیا کہ "اس کے بغیر جینے کا کوئی فائدہ نہیں" اور وہ جلد ہی اسپتال میں داخل ہوگئیں۔ ان کی آخری ٹوئٹ 17 جولائی کو کی گئی تھی، جو ان کے بیٹے کے بارے میں تھی۔

اپنی آخری ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا"خودکشی کرنے والےتمام بچوں کی ماؤں کے لیے۔"

اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسو سی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔