دفتر پر چھاپہ، ایم کیو ایم کا کراچی میں دھرنے کا اعلان

فائل

بدھ کی شب رینجرز کی بھاری نفری نے کراچی کے علاقے 'اسکیم 33' میں واقع ایم کیو ایم کے ایک دفتر پر چھاپہ مار کر 25 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سربراہ الطاف حسین نے اپنے کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف کراچی میں دھرنے دینے کا اعلان کیا ہے۔

جمعرات کو علی الصباح کراچی میں وزیرِاعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنے پر بیٹھے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنماؤں اور کارکنوں سے لندن سے بذریعہ ٹیلی فون خطاب کرتے ہوئے انہوں نے الزام عائد کیا کہ رینجرز اہلکاروں نے ان کے کارکنوں کو حراست میں لے کر مہاجر دشمنی کا ثبوت دیا ہے جس کے خلاف جمعرات سے کراچی میں دھرنے ہوں گے۔

خیال رہے کہ بدھ کی شب رینجرز کی بھاری نفری نے کراچی کے علاقے 'اسکیم 33' میں واقع ایم کیو ایم کے ایک دفتر پر چھاپہ مار کر 25 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔

دفتر پر چھاپے اور کارکنوں کی گرفتاریوں پر ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی اور دیگر رہنماؤں نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا تھا جب کہ پارٹی کے رہنما اور گرفتار کارکنوں کے اہلِ خانہ وزیرِاعلیٰ ہاؤس پہنچے تھے جہاں انہوں نے دھرنا دیا۔

دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین کا کہنا تھا کہ جب لاہور اور اسلام آباد میں دھرنے ہوسکتے ہیں تو کراچی والوں کو بھی احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کراچی میں کئی سیاسی جماعتوں کے عسکری دھڑے کام کر رہے ہیں لیکن ہر بار آپریشن کے نام پر ایم کیو ایم کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

الطاف حسین نے رینجرز افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جتنے چاہے چھاپے مارلیں لیکن ایم کیو ایم ان کے سامنے سرنڈر نہیں کرے گی۔

رینجرز کے ترجمان کی جانب سے رات گئے جاری کیے جانے والے ایک مختصر بیان میں چھاپے اور گرفتاریوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ گشت پر مامور رینجرز اہلکاروں پر ایک عمارت سے فائرنگ کی گئی تھی جس کے جواب میں چھاپہ مارا گیا۔

رینجرز ترجمان نے کہا تھا کہ گرفتار افراد سے تفتیش کی جارہی ہے اور ان میں سے جو بے گناہ ہوا اسے جلد رہا کردیا جائے گا۔

ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ایک اعلامیے کے مطابق چھاپے کے وقت دفتر میں پارٹی کا اجلاس جاری تھا جس میں سیکڑوں کارکن شریک تھے۔

رابطہ کمیٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے نام پر ایم کیو ایم کے کارکنوں اور رہنماؤں کی بلاجواب گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے جس کا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ذمہ داروں کو نوٹس لینا چاہیے۔