پاکستان کے صوبۂ سندھ کی دوسری بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے دو دھڑوں میں تین روز قبل سامنے آنے والے اختلافات تاحال برقرار ہیں جس کے بعد دونوں دھڑوں کی جانب سے سینیٹ کے انتخابات کے لیے الگ الگ نامزد کیے جانے والے امیدواران نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرادیے ہیں۔
دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ دونوں دھڑوں کے اختلافات دور کرنے اور انہیں متحد رکھنے کے لیے پسِ پردہ مذاکرات اور کوششیں بھی جاری ہیں۔
یہ اختلافات منگل کو اس وقت سامنے آئے تھے جب ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے پارٹی سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کے فیصلے کے خلاف پارٹی رہنما کامران ٹیسوری کو سینیٹ کا ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ان کی پارٹی رکنیت معطل کردی تھی۔
دوسری جانب ڈاکٹر فاروق ستار کامران ٹیسوری کو سینیٹ الیکشن لڑانے کے اپنے مؤقف پر اب تک ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے پارٹی سربراہ کی حیثیت سے کامران ٹیسوری سمیت آٹھ امیدوار نامزد کردیے ہیں جنہوں نے سینیٹ کے انتخاب کے لیے کاغذاتِ نامزدگی بھی جمع کرادیے ہیں۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی کی مخالفت کے باوجود کامران ٹیسوری کو سینیٹ الیکشن میں پارٹی کا پہلے نمبر پر امیدوار نامزد کیا ہے۔ دیگر نامزد امیدواروں میں فرحان چشتی، جسٹس ریٹائرڈ حسن فیروز، احمد چنائے، سنجے پروانی، منگلا شرما، قمر منصور اور علی رضا عابدی کے نام شامل ہیں۔
دوسری جانب رابطہ کمیٹی کے نامزد کردہ امیدواروں نے بھی سینیٹ الیکشن کے لیے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرادیے ہیں۔ رابطہ کمیٹی کے امیدواروں میں موجودہ سینیٹر نسرین جلیل، کشور زہرہ، عامر چشتی، بیرسٹر فروغ نسیم، امین الحق، پروفیسر مطیع الرحمان اور ڈاکٹر عبدالقادر خانزادہ شامل ہیں۔
دونوں دھڑوں میں اختلاف کی وجہ بننے والا نام کامران ٹیسوری کا ہے جو جنوری 2017ء میں ہی ایم کیو ایم میں شامل ہوئے تھے اور پارٹی کی روایت کے برخلاف صرف ایک سال کے عرصے میں ترقی کی منازل طے کرتے کرتے پارٹی کے ان چھ سرکردہ رہنماؤں میں شامل ہوچکے ہیں جو رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر کا عہدہ رکھتے ہیں۔
کامران ٹیسوری کا کہنا ہے کہ وہ پارٹی سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کا ہر حکم بجا لانے کے لیے تیار ہیں۔
جمعرات کو اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹیسوری نے کہا کہ انہیں امیدوار نامزد کرنے یا نہ کرنے کا مکمل اختیار ڈاکٹر فاروق ستار کے پاس ہے اور اگر انہوں نے کہا تو وہ دستبردار ہونے میں ایک منٹ بھی نہیں لگائیں گے۔
اتنے کم عرصے میں کامران ٹیسوری کی پارٹی میں ترقی کو بہت سے لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انہیں پارٹی میں ڈاکٹر فاروق ستار کا خاص آدمی سمجھا جاتا ہے جس نے بہت ہی کم عرصے میں پارٹی سربراہ کا بے حد اعتماد حاصل کرلیا ہے۔
فاروق ستار کامران ٹیسوری کو ترجیح دینے سے متعلق الزامات کی تردید کرتے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ پارٹی میں اختلاف کی وجہ بھی کامران ٹیسوری نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔
فاروق ستار نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ پارٹی کے بعض رہنما انہیں فیصلوں پر بلیک میل کرتے ہیں اور انہیں بطور پارٹی سربراہ اپنے فیصلے منوانے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
سینیٹ انتخابات سے عین قبل ایم کیو ایم میں سامنے آنے والی اس تقسیم کو سیاسی تجزیہ کار پارٹی کے مسلسل زوال سے تعبیر کررہے ہیں۔
دلچسپ صورتِ حال یہ ہے کہ سندھ اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت ہونے کے باوجود ایم کیو ایم کو سندھ سے خالی ہونے والی سینیٹ کی 12 نشستوں میں سے دو سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں مشکل کا سامنا ہوگا اور اگر ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں کے درمیان اختلافات برقرار رہے تو ایم کیو ایم کی یہ دو نشستیں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
ایم کیو ایم کی سندھ اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد 50 ہے لیکن فی الوقت صرف 37 ارکان ایم کیو ایم کو ووٹ کاسٹ کرسکتے ہیں کیوں کہ باقی کے 13 ارکان میں سے بعض ایم کیو ایم سے علیحدہ ہونے والے رہنما مصطفیٰ کمال کی جماعت 'پاک سرزمین پارٹی' میں شامل ہوچکے ہیں جبکہ کچھ سیاست سے کنارہ کش ہوچکے ہیں۔
لیکن فاروق ستار نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ اگر رابطہ کمیٹی ان پر بھروسہ کرے تو وہ ایم کیو ایم کے چار سینیٹرز منتخب کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
اختلافات دور کرنے کے لیے دونوں دھڑوں کے درمیان مذاکرات کا عمل بھی جاری ہے اور امکان ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار جمعرات کو کسی وقت کراچی کے علاقے بہادرآباد میں قائم ایم کیو ایم کے صدر دفتر جاکر رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرسکتے ہیں جس میں دونوں دھڑے اپنے اپنے نامزد امیدواران کے ناموں پر بحث کے بعد امیدواروں کی حتمی فہرست مرتب کریں گے۔