’کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرے، ہم بلدیاتی انتخابات کا کسی صورت بائیکاٹ نہیں کریں گے، اگر ہم نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لیا تو پھر کوئی بھی حصہ نہیں لے سکے گا،‘ ایم کیو ایم رہنما خالد مقبول کا احتجاجی مظاہرے سے خطاب۔
کراچی —
سندھ کی اہم سیاسی جماعت صوبائی اسمبلی کی اپوزیشن جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے اتوار کے روز سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2013 کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔
کراچی میں احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما اور قائد ِحزب اختلاف فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ، ’سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل کالے قانون کو نافذ کرکے پیپلز پارٹی نے انتظامی طور پر سندھ کو تقسیم کردیا ہے، سندھ کو شہری اور دیہی علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے‘۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ، ’خواب دیکھا جارہا ہے کہ کراچی کا اگلا میئر پیپلز پارٹی کا ہوگا، کراچی کا میئر وہ ہونا چاہیے جس کو عوام منتخب کرے‘۔
متحدہ کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے احتجاجی دھرنے سے خطاب میں کہا کہ، ’سندھ کا بلدیاتی بل مسترد کرتے ہیں، فیصلہ ووٹ سے نہ ہوا تو روڈ پر ہوگا، بلدیاتی انتخابات کا کسی صورت بائیکاٹ نہیں کریں گے، اپنے مینڈ یٹ کیلئے آج پھر عوام سڑکوں پر ہیں‘۔
خالد مقبول کا مزید کہنا تھا کہ، ’کراچی شہرصوبے کا 99 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے، ایم کیو ایم سندھ کی شہری آبادی کی نمائندہ جماعت ہے، کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرے، ہم بلدیاتی انتخابات کاکسی صورت بائیکاٹ نہیں کریں گے، اگر ہم نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لیا تو پھر کوئی بھی حصہ نہیں لے سکے گا‘۔
حیدر عباس رضوی نے کہا کہ، ’پیپلز پارٹی کے پاس جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کا مینڈیٹ ہے،سندھ میں اگر صاف شفاف مردم شماری کرادی جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ایم کیو ایم نے کبھی بھی اپنی بساط سے زیادہ کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا‘۔
دوسری جانب سندھ کے صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن ایم کیو ایم کے مظاہرے پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ سندھ ترمیمی بل کیخلاف عدالت گئی ہے تو پھر احتجاج کیوں کیا جا رہا ہے۔
صحافیوں سے گفتگو میں شرجیل میمن کا مزید کہنا ہے کہ، ’دھرنوں اور مظاہروں سے حلقہ بندیاں تبدیل نہیں کی جائیں گی، پیپلزپارٹی کو مینڈیٹ عوام نے دیا ہے کسی جماعت نے نہیں دیا۔ حلقہ بندیوں کوسیاسی رنگ دینا مناسب نہیں، ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی حلقہ بندیاں کی گئی ہیں ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ مشرف دور والی حلقہ بندیاں کی جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ، ’ایم کیوایم بات کرنا چاہتی ہے تو آج بھی ہمارے دروازے کھلے ہیں‘۔
کراچی میں احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما اور قائد ِحزب اختلاف فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ، ’سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل کالے قانون کو نافذ کرکے پیپلز پارٹی نے انتظامی طور پر سندھ کو تقسیم کردیا ہے، سندھ کو شہری اور دیہی علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے‘۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ، ’خواب دیکھا جارہا ہے کہ کراچی کا اگلا میئر پیپلز پارٹی کا ہوگا، کراچی کا میئر وہ ہونا چاہیے جس کو عوام منتخب کرے‘۔
متحدہ کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے احتجاجی دھرنے سے خطاب میں کہا کہ، ’سندھ کا بلدیاتی بل مسترد کرتے ہیں، فیصلہ ووٹ سے نہ ہوا تو روڈ پر ہوگا، بلدیاتی انتخابات کا کسی صورت بائیکاٹ نہیں کریں گے، اپنے مینڈ یٹ کیلئے آج پھر عوام سڑکوں پر ہیں‘۔
خالد مقبول کا مزید کہنا تھا کہ، ’کراچی شہرصوبے کا 99 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے، ایم کیو ایم سندھ کی شہری آبادی کی نمائندہ جماعت ہے، کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرے، ہم بلدیاتی انتخابات کاکسی صورت بائیکاٹ نہیں کریں گے، اگر ہم نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لیا تو پھر کوئی بھی حصہ نہیں لے سکے گا‘۔
حیدر عباس رضوی نے کہا کہ، ’پیپلز پارٹی کے پاس جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کا مینڈیٹ ہے،سندھ میں اگر صاف شفاف مردم شماری کرادی جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ایم کیو ایم نے کبھی بھی اپنی بساط سے زیادہ کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا‘۔
دوسری جانب سندھ کے صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن ایم کیو ایم کے مظاہرے پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ سندھ ترمیمی بل کیخلاف عدالت گئی ہے تو پھر احتجاج کیوں کیا جا رہا ہے۔
صحافیوں سے گفتگو میں شرجیل میمن کا مزید کہنا ہے کہ، ’دھرنوں اور مظاہروں سے حلقہ بندیاں تبدیل نہیں کی جائیں گی، پیپلزپارٹی کو مینڈیٹ عوام نے دیا ہے کسی جماعت نے نہیں دیا۔ حلقہ بندیوں کوسیاسی رنگ دینا مناسب نہیں، ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی حلقہ بندیاں کی گئی ہیں ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ مشرف دور والی حلقہ بندیاں کی جائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ، ’ایم کیوایم بات کرنا چاہتی ہے تو آج بھی ہمارے دروازے کھلے ہیں‘۔