سابق صدر کو رہائی کے بعد قاہرہ کی طورہ جیل سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایک فوجی اسپتال منتقل کردیا گیا جہاں انہیں نظر بند رکھا جائے گا۔
واشنگٹن —
مصر میں حکام نے گزشتہ دو برس سے قید سابق صدر حسنی مبارک کو جیل سے رہا کردیا ہے جس کے بعد خدشہ ہے کہ ملک کی پہلے سے ابتر سیاسی صورتِ حال مزید کشیدہ رخ اختیار کرسکتی ہے۔
جمعرات کو سابق صدر کو رہائی کے بعد قاہرہ کی طورہ جیل سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے دارالحکومت کے نزدیک ہی واقع ایک فوجی اسپتال منتقل کردیا گیا جہاں انہیں نظر بند رکھا جائے گا۔
مصر کی ایک عدالت نے گزشتہ روز 85 سالہ حسنی مبارک کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ سابق صدر کو بدعنوانی اور قتل کے الزامات کے تحت جاری مقدموں میں مزید زیرِ حراست نہیں رکھا جاسکتا۔
عدالتی فیصلے کے بعد مصر کے عبوری وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں ملک میں نافذ ہنگامی حالت کے پیشِ نظر سابق صدر کو جیل سے رہائی کے بعد نظر بند رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
مصر پر مسلسل 30 برسوں تک حکمرانی کرنے والے سابق فوجی سربراہ پر بدعنوانی، اپنے خلاف ہونے والے مظاہروں کے شرکا پر تشدد اور ان کے قتل کے احکامات جاری کرنے سمیت کئی الزامات ہیں۔
حسنی مبارک کو جنوری 2011ء میں چلنے والی عوامی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا جس کے بعد سے وہ مختلف الزامات کے تحت حراست میں ہیں اور خرابی صحت کے باعث وقفے وقفے سے جیل کے اسپتال میں زیرِ علاج بھی رہ چکے ہیں۔
اپنے خلاف ہونے والے مظاہروں کے شرکاء کے قتل کے احکامات جاری کرنے کا الزام ثابت ہونے پر مصر کی ایک عدالت نے گزشتہ برس حسنی مبارک ااور ان کے وزیرِ داخلہ کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
تاہم اس سزا کےخلاف استغاثہ اور ملزمان کے وکلا نے اپیلیں دائر کردی تھیں جن کی سماعت ہونا باقی ہے۔ لیکن مصر کے فوجداری قانون کے تحت اپیلوں کے فیصلے تک سابق صدر کا قید میں رہنا ضروری نہیں۔
مصر پر 30 سال تک مطلق العنان حکمران رہنے والے حسنی مبارک کی جیل سے رہائی پر ملک میں ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔
سابق صدر کے استقبال کے لیے جمعرات کو ان کے درجنوں حامی قاہرہ کے طورہ جیل کے باہر جمع ہوئے لیکن انہیں اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب سابق صدر کو جیل کے اندر سے ہی ہیلی کاپٹر کے ذریعے شہر کے دوسرے کنارے پر واقع ایک فوجی اسپتال منتقل کردیا گیا۔
مصر کے کئی عوامی حلقوں نے سابق آمر کی رہائی پر کڑی نکتہ چینی بھی کی ہے اور اسے جنوری 2011ء میں آنے والے عوامی انقلاب کو ناکام بنانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
قیاس کیا جارہا ہے کہ حسنی مبارک کی رہائی کے نتیجے میں ملک میں 'اخوان المسلمون' اور اس کی اتحادی جماعتوں کی پہلے سے جاری احتجاجی تحریک مزید شدت اختیار کرجائے گی۔
اخوان اور اس کی اتحادی سیاسی جماعتیں ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی معزولی کے خلاف ملک بھر میں سخت احتجاج کر رہی ہیں جنہیں مصر کی فوج نے تین جولائی کو ان کے عہدے سے معزول کردیا تھا۔
فوجی اقدام کے بعد سے جاری اسلام پسندوں کی احتجاجی تحریک اور اس پر سکیورٹی اداروں کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اب تک لگ بھگ ایک ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن کی اکثریت کا تعلق محمد مرسی کے حامیوں سے ہے۔
جمعرات کو سابق صدر کو رہائی کے بعد قاہرہ کی طورہ جیل سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے دارالحکومت کے نزدیک ہی واقع ایک فوجی اسپتال منتقل کردیا گیا جہاں انہیں نظر بند رکھا جائے گا۔
مصر کی ایک عدالت نے گزشتہ روز 85 سالہ حسنی مبارک کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ سابق صدر کو بدعنوانی اور قتل کے الزامات کے تحت جاری مقدموں میں مزید زیرِ حراست نہیں رکھا جاسکتا۔
عدالتی فیصلے کے بعد مصر کے عبوری وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں ملک میں نافذ ہنگامی حالت کے پیشِ نظر سابق صدر کو جیل سے رہائی کے بعد نظر بند رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
مصر پر مسلسل 30 برسوں تک حکمرانی کرنے والے سابق فوجی سربراہ پر بدعنوانی، اپنے خلاف ہونے والے مظاہروں کے شرکا پر تشدد اور ان کے قتل کے احکامات جاری کرنے سمیت کئی الزامات ہیں۔
حسنی مبارک کو جنوری 2011ء میں چلنے والی عوامی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا جس کے بعد سے وہ مختلف الزامات کے تحت حراست میں ہیں اور خرابی صحت کے باعث وقفے وقفے سے جیل کے اسپتال میں زیرِ علاج بھی رہ چکے ہیں۔
اپنے خلاف ہونے والے مظاہروں کے شرکاء کے قتل کے احکامات جاری کرنے کا الزام ثابت ہونے پر مصر کی ایک عدالت نے گزشتہ برس حسنی مبارک ااور ان کے وزیرِ داخلہ کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
تاہم اس سزا کےخلاف استغاثہ اور ملزمان کے وکلا نے اپیلیں دائر کردی تھیں جن کی سماعت ہونا باقی ہے۔ لیکن مصر کے فوجداری قانون کے تحت اپیلوں کے فیصلے تک سابق صدر کا قید میں رہنا ضروری نہیں۔
مصر پر 30 سال تک مطلق العنان حکمران رہنے والے حسنی مبارک کی جیل سے رہائی پر ملک میں ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔
سابق صدر کے استقبال کے لیے جمعرات کو ان کے درجنوں حامی قاہرہ کے طورہ جیل کے باہر جمع ہوئے لیکن انہیں اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب سابق صدر کو جیل کے اندر سے ہی ہیلی کاپٹر کے ذریعے شہر کے دوسرے کنارے پر واقع ایک فوجی اسپتال منتقل کردیا گیا۔
مصر کے کئی عوامی حلقوں نے سابق آمر کی رہائی پر کڑی نکتہ چینی بھی کی ہے اور اسے جنوری 2011ء میں آنے والے عوامی انقلاب کو ناکام بنانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
قیاس کیا جارہا ہے کہ حسنی مبارک کی رہائی کے نتیجے میں ملک میں 'اخوان المسلمون' اور اس کی اتحادی جماعتوں کی پہلے سے جاری احتجاجی تحریک مزید شدت اختیار کرجائے گی۔
اخوان اور اس کی اتحادی سیاسی جماعتیں ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی معزولی کے خلاف ملک بھر میں سخت احتجاج کر رہی ہیں جنہیں مصر کی فوج نے تین جولائی کو ان کے عہدے سے معزول کردیا تھا۔
فوجی اقدام کے بعد سے جاری اسلام پسندوں کی احتجاجی تحریک اور اس پر سکیورٹی اداروں کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اب تک لگ بھگ ایک ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن کی اکثریت کا تعلق محمد مرسی کے حامیوں سے ہے۔