کراچی میں تعزیوں کی تیاری آخری مراحل میں داخل

تعزیہ

عاشورہ سے ایک یا دو رات قبل تعزیئے کو گلیوں، چوراہوں، سڑک کے کنارے یا امام بارگاہوں کے قریب رکھ دیا جاتا ہے جہاں تمام لوگ خاص کر اہل محلہ اس کی نہایت عقیدت کے ساتھ زیارت کرتے ہیں
جیسے جیسے عاشورہ کا دن قریب آرہا ہے، کراچی میں تعزیہ سازی اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔

عمومی طور پر محرم کا مہینا شروع ہوتے ہی تعزیہ بنانے کا آغاز ہوجاتا ہے اور 8یا 9محرم کو اسے تیار کرکے زیارت کے لئے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس وقت کراچی کے بہت سے علاقوں میں تعزیئے بنائے جارہے ہیں، چونکہ دن کم اور کام زیادہ ہے، لہذا اب راتوں کو بھی اس کام کے لئے مختص کردیا گیا ہے۔


تعزیہ سازی کی تاریخ سولہویں صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے “۔ یہ کہنا ہے پچھلے 40سال سے تعزیہ بنانے والے گلبہار کراچی کے شہری، عبدالستار کا۔

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بہت چھوٹی عمر سے یہ کام شروع کردیا تھا۔ وہ محض شوق اور پیغمبر اسلام حضرت محمد
کے نواسے حضرت حسین سے عقیدت کی بناٴ پرتعزیئے بناتے ہیں، ورنہ یہ ان کا پیشہ نہیں۔

کراچی کے ایک محقق ڈاکٹر شاہ محمد تبریزی کے مطابق جنوبی ایشیاٴ خاص کر پاکستان اور بھارت میں تعزیہ سازی اٹھارہویں صدی میں عروج کو پہنچی۔ ان کے مطابق تعزیئے سے مراد حضرت امام حسین کے روضے کی شبیہہ ہے۔ تعزیئے مختلف اشکال اور مختلف اشیاء سے تیار کئے جاتے ہیں۔ ان اشیاء میں مختلف دھاتیں مثلاً لوہا، پیتل، چاندی اور سونا بھی شامل ہے جبکہ دیگر اشیاٴ میں لکڑی، بانس، پتے، کپڑے، کاغذ، پھول، دھاگہ وغیرہ شامل ہے ۔

تعزیئے کی کئی قسمیں ہوتی ہیں جن میں ضریح یعنی روضہ امام حسین کا جنگلہ اور قبر حسین شامل ہیں، جبکہ ایک تعزیہ کئی مختلف حصوں اور منزلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان تمام حصوں کے الگ الگ نام ہیں۔ سب سے نچلے حصّے کو تخت، اس سے اوپر والے حصّے کو حظیرہ، اس کے بعد والے کو تربت اور سب سے اوپر والے حصّے کو عَلم کہتے ہیں۔

عاشورہ سے ایک یا دو رات قبل تعزیئے کو گلیوں، چوراہوں، سڑک کے کنارے یا امام بارگاہوں کے قریب رکھ دیا جاتا ہے جہاں تمام لوگ خاص کر اہل محلہ اس کی نہایت عقیدت کے ساتھ زیارت کرتے ہیں۔ تعزیہ دیکھنے والے اس پر مختلف انداز سے چڑھاوے چڑھاتے ہیں ۔ کوئی نقدی دیتا ہے تو کوئی میوہ اور دیگر قیمتی چیزیں چڑھاتا ہے ۔

علاوہ ازیں، تعزیئے سے متعلق کچھ رسومات بھی اداکی جاتی ہیں مثلاً ً تعزیئے کے نیچے سے بچوں کو گزارنا، منتیں ماننا، چڑھاوے چڑھانا ،سبز، سرخ اور زرد رنگ کے کپڑے پہن کر امام حسین کا فقیر (منگتا) بننا، عَلم چڑھانا، نذر و نیاز کرنا،تعزئیے کو بوسہ دینا، تعزیے کے نیچے بچوں کے ناک، کان چِھد وانا اور عرضیاں باندھنا وغیرہ۔

پاکستان کے علاوہ کشمیر، نیپال اور افریقہ میں بھی تعزیہ داری کا وہی انداز اختیار کیا جاتا ہے جو پاکستان میں ملحوظ رکھاجاتا ہے۔

دس محرم کو تعزئیے کو ٹھیلوں اور مختلف گاڑیوں پر رکھ کر مرکزی جلوس میں لے جائے جاتے ہیں۔ جلوس کے اختتام پر انہیں ’ٹھنڈا ‘ کیا جاتا ہے، یعنی اس کے کچھ حصوں کو زمین میں دفن یا سمندر برد یا دریا میں بہا دیا جاتا ہے۔ تعزیہ ٹھنڈا کرنے کے بعد باقی تبرکات کو اگلے سال کے لیے محفوظ کرلیا جاتا ہے۔