’’نظریہ ملن‘‘ کا ایک صحافتی تجزیہ

امریکہ کی مسلح افواج کے اعلیٰ ترین افسر، ایڈمرل مائیک ملن نے امریکہ کی طرف سے جنگ لڑنے کے نئے اصول وضع کیے ہیں۔ اس نئے فلسفے میں عراق اور افغانستان میں جنگ کے تجربات سے فائدہ اٹھایا گیا ہے اور یہ اُ س انداز فکر کی جگہ لے گا جس پر ان کے پیش رو عمل کرتے رہے ہیں۔مختصراً، اِس نئے طریقے میں طاقت کے استعمال میں احتیاط برتی جائے گی ، سویلین آبادی کو نقصان سے بچانے کے لیے طاقت کا استعمال کم کر دیا جائے گا اور جلد فتح حاصل کرنے کے لیے بمباری اور گولہ بارود پر انحصار کم کر دیا جائے گا۔ اس نئے فلسفے کو ’’نظریہ ملن‘‘ Mullen Doctrine کا نام دیا گیا ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ جنرل کولن پاول نے خلیج کی پہلی جنگ میں جس نظریے کو فروغ دیا تھا اب اس کی جگہ ایک نئے نظریےنے لے لی ہے ۔نظریہ پاول Powell Doctrine کے اصول یہ تھے کہ امریکی فوج صرف اسی صورت میں بھیجی جانی چاہیئے جب کوئی بڑا قومی مفاد داؤ پر لگا ہوا ہو، جب عوام کی حمایت کا یقین ہو اور جب اس مہم کے لیے زبردست فوجی طاقت لگائی جا سکے۔ لیکن امریکہ کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئر مین ایڈمرل ملن کا کہنا ہے کہ آج کل کے خطرات سے نمٹنے میں زبردست فوجی طاقت کے استعمال سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہو سکتا ہے ۔

افغان صحافی نبی مصداق کہتے ہیں کہ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ افغانستان میں جنگی طاقت کے استعمال کو محدود رکھا جائے کیوں کہ سویلین آبادی میں جانی نقصان کی وجہ سے لوگوں میں غم و غصہ پیدا ہوتا ہے اور بغاوت کو تقویت ملتی ہے۔ وہ کہتے ہیں’’افغانستان میں اسپیشل فورسز اور سی آئی اے کے جو لوگ برسوں سے کام کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ طاقت کے استعمال سے فائدہ نہیں ہوتا اور دشمنوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ افغانستان میں ایک پشتون کہاوت ہے کہ آپ کے دوست کی حیثیت سے میں آپ کے ساتھ جہنم میں بھی جانے کو تیار ہو جاؤں گا لیکن دشمن کی طرح میں آپ کے ساتھ جنت میں بھی نہیں جاؤں گا۔ اور میرے خیال میں اب یہ بات کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ لڑنے والے بیشتر لوگ طالبان نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے گھرانے کے ان لوگوں کی موت کا انتقام لے رہے ہیں جو جنگ میں ہلاک ہوئے اور جن کا القاعدہ یا طالبان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‘‘

مصداق کہتے ہیں کہ نیٹو کی فوجوں نے جس طرح جنگ لڑی ہے وہ مقامی آبادی کی اقدار کے خلاف ہے۔ ایک طریقہ تو بمباری کا ہے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ آدھی رات کو دروازے توڑ کر لوگوں کے گھروں میں داخل ہو جائیں، مردوں اور عورتوں کو پکڑ کر باہر لے جائیں اور پھر گھنٹوں کمروں کی تلاشی لیں۔ یہ سب کچھ پشتونوں کے روایتی قانون، پشتون ولی کے خلاف ہے ۔ اس طرح نیٹو کی فورسز کے دشمنوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

برطانوی صحافی این ویلیمز جو اقوامِ متحدہ سے رپورٹنگ کرتے ہیں، ان خیالات سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ برطانیہ کے فوجی افسر اپنے امریکی ہم منصبوں سے کہتے رہے ہیں کہ انہیں طاقت کے استعمال کے بارے میں اپنے اصول بدلنے چاہئیں ۔ ان کا کہنا ہے’’میرے خیال میں ملن کسی نئے نظریے کی بات نہیں کر رہے۔ وہ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ہر بار مخصوص حالات کو مد نظر رکھنا چاہئیے ۔ طاقت کا بھر پور استعمال کسی دوسرے ملک کی مسلح افواج کو برباد کرنے کے لیے تو سمجھ میں آتا ہے لیکن آج کل بیشتر جنگیں اس مقصد کے لیے نہیں لڑی جاتیں۔ جیسا کہ برطانیہ نے شمالی آئر لینڈ میں برسوں کے تجربے کے بعد سیکھا ہے، دہشت گردوں کی چال یہ ہوتی ہے کہ وہ اتنا اشتعال پیدا کر دیتے ہیں کہ پھرحکومتوں کے اقدامات کی وجہ سے مقامی آبادی دہشت گردوں کا ساتھ دینے لگتی ہے۔‘‘

ولیمز کہتے ہیں کہ بعض حالات میں طاقت کا بھر پور استعمال ضروری ہوتا ہے۔ لیکن ایسے حالات بھی ہوتے ہیں جب آ پ کو زیادہ توازن سے کام لینا چاہیئے ۔آپ کو یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ جتنی بار آپ جنگ میں عام آبادی کے جانی اور مالی نقصانات کی بات کرتے ہیں تو آپ دشمنوں کی نئی کھیپ کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ عام سمجھ بوجھ کی بات ہے۔ ملن دراصل یہی بات کہہ رہے ہیں کہ ہم دشمنوں کی نئی نسل تخلیق کر رہے ہیں اور جنگ جیت نہیں رہے ہیں۔

سابق پاکستانی صحافی اور سفارتکار اکبر احمد کہتے ہیں کہ طاقت کے استعمال کے بارے میں ایڈمرل ملن کے نئے نظریہ پر اطمینان کا سانس لیا جا رہا ہے ۔ ’’پاکستان میں آج کل سخت ناراضگی پھیلی ہوئی ہے۔ پاکستانی محسوس کرتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد ایسے مقصد کے لیے جس سے ان کا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے، انھوں نے بہت زیادہ جانی نقصان برداشت کیا ہے۔ پاکستانی فوج نے حال ہی میں اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن کے مطابق نائن الیون کے بعد سے اب تک 30 ہزار پاکستانی سویلین اور فوجی عملے کے لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں ایڈمرل ملن کی ہدایات کا، جو دانشمندی پر مبنی ہیں، خیر مقدم کیا جا رہا ہے ۔ اب تک جس حکمت عملی پر عمل کیا جاتا رہا ہے اس میں طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن یہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہوئی۔ میں جانتا ہوں کہ آج کل ملن اور ان کے فیلڈ کمانڈر، جیسے جنرل میک کرسٹل، احترام اور وقار جیسے الفاظ کثرت سے استعمال کر رہے ہیں۔ اگر امریکہ کو وہاں طویل عرصے تک رہنا ہے تو یہی صحیح طریقہ ہے۔‘‘

مسٹر احمد جو امریکن یونیورسٹی میں اسلامی علوم کے شعبے کے چیئر مین ہیں، کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں، عراق اور افغانستان میں امریکی پالیسی کی وجہ سے دنیا کے بعض علاقوں میں امریکہ کے خلاف جذبات کی جو لہر تقریباً ایک عشرے سے پھیلی ہوئی ہے اسے اب بھی روکا جا سکتا ہے۔