پاکستان کے سابق وفاقی وزیر سینیٹر مشاہد حسین سید نے سابق امریکی صدر براک اوباما کی افغان پالیسی کو ناکام قرار دیتے ہوئے، اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ’’ماضی کے مقابلے میں صدر ٹرمپ اپنے ویژن کے مطابق، نئی افغان پالیسی میں پاکستان کو ساتھ لے کر چلیں گے، اور پاکستان اس حوالے سے امریکہ سے تعاون کے لئے تیار ہے‘‘۔
اُنھوں نے یہ بات ’ایٹلانٹک کونسل‘ میں پاکستان اور بھارت کو درپیش میڈیا چیلجنز کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کی۔ اس موقع پر بھارت کے سابق وزیر اطلاعات اور کانگریس کے ترجمان منیش تیواڑی نے بھی خطاب کیا اور دونوں ممالک کو درپیش میڈیا چیلجنز پر سامعین کے سوالوں کے جواب بھی دئے۔
مشاہد حسین سید نے تقریب کے بعد وائس آف امریکہ سے بات چیت میں کہا کہ سابق امریکی صدر براک اوباما کی افغان پالیسی کی ناکامی کی وجہ پالیسی کے تضادات ہیں۔ صدر اوباما کبھی افغانستان سے افواج نکال لیتے اور کبھی دوبارہ داخل کرتے رہے اور ناکامی کے بعد الزام پاکستان پر عائد کیا۔
مشاہد حسین نے کہا کہ نئی افغان پالیسی تشکیل دینے والوں میں جنرل مک ماسٹر اور جنرل جم میٹس شامل ہیں جو افغانستان میں تعینات رہے ہیں اور پاک فوج کے ساتھ مل کر کام کرچکے ہیں۔ اس لئے، بقول اُن کے، ’’وہ جانتےہیں کہ خطے میں پائیدار امن کے لئے انھیں پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہوگی‘‘۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ کی نئی افغان پالسی ماضی سے یقنناً بہتر ہوگی، ’’کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ صدر اوباما سے مختلف ہے۔ وہ جنگ و جدل میں الجھنا نہیں چاہتے۔ اسی لئے انھوں نے یمن میں بھی باغیوں کو اسلحہ کی فراہمی بند کر دی ہے۔ افغانستان میں ان کی کوشش ہوگی کہ پاکستان کے ساتھ مل کر خطے میں پائیدار امن کے لئے کام کریں‘‘۔
انھوں نے اس خیال کو سختی سے مسترد کیا کہ مستقبل میں پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کے امکانات کم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان افغان مسئلے کے حل میں امریکہ کی مدد کرنے کو تیار ہے‘‘۔
مشاہد حسین نے پاک چین اقتصادی راہداری کو سفارتی اور اقتصادی حوالے سے اکیسویں صدی کا ’’سب سے بڑا منصوبہ‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اس کے فوائد خطے کے ممالک ہی نہیں بلکہ نصف دنیا تک پہنچیں گے اور پاکستان قدیمی شاہراہ ریشم کو بحال کرکے جنوبی اور وسطی ایشیا کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرے گا۔
انھوں نے کہا کہ کراچی سے طورخم تک ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کی لاگت سے جو ریلوے لائن بچھائی جا رہی ہے، پاکستان کی خواہش ہے کہ اسے افغانستان تک توسیع دی جائے۔ بقول اُن کے، ’’علاقائی تعاون ہوگا تو خطے میں کشیدگی بھی ختم ہوسکے گی‘‘۔
اس سے قبل، مشاہد حسین نے اس بات سے اتفاق کیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان میڈیا تبادلے تمام پابندیوں کے باوجود قائم ہیں، جس میں مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ بھارت سابق وزیر اطلاعات منیش تیواڑی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان میڈیا کی مارکیٹ کی مالیت 500 ملین ڈالر کی ہے، جس میں بہت زیادہ اضافہ ممکن ہے، اور میڈیا تبادلوں سے دونوں ممالک کی عوام کو قریب لانے میں مدد ملے گی۔