رسائی کے لنکس

مشرقی سرحدوں پر کشیدگی دہشتگردی کےخلاف پاکستان کی مہم کیلیے نقصان دہ


سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ پاکستان کے دو لاکھ فوجی مغربی سرحد کے نزدیک علاقوں میں عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کاروائی کر رہے ہیں

امریکہ کے دورے پر آئے پاکستان کے دو رکنی پارلیمانی وفد کے راہنما سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ مشرقی سرحدوں پر بھارت کے ساتھ کشیدگی مغربی سرحدوں پر عسکریت پسندوں کے خلاف جاری پاکستان کی فوجی مہم کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے اور یہ بات نہ صرف پاکستان ، افغانستان اور پورے خطے بلکہ امریکہ کے مقاصد کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا بھر کے سامنے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں، ان کے بقول، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کے لیے دنیا کے تمام بڑے دارالحکومتوں میں احساس بیدار کر رہا ہے۔

سینیڑ مشاہد حسین سید نے یہ بات واشنگٹن میں پاکستان کے سفارتخانے میں امریکہ کے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو متنازعہ کشمیر میں کئی ماہ سے جاری مظاہروں اور تشدد سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر رکن پارلیمنٹ شزرہ منصب نے ایک دستاویز بھی دکھائی جو مہمان وفد کے مطابق سری نگر میں بھارت کی فوج کے ہاتھوں عام شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک کی عکاس ہے۔

پاکستان کا پارلیمانی کشمیر ایڈووکیسی گروپ ایسے وقت میں امریکہ کا دورہ کر رہا ہے جب گزشتہ ہفتے پاکستان کی حدود کے اندر سرجیکل سٹرائیک کے بھارت کے دعوے کے بعد دونوں جوہری طاقت کے حامل پڑوسی ملکوں کے درمیاں حالات بہت کشیدہ ہیں۔ اور وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی حکومت پاکستان کو دنیا سے الگ تھلگ کرنے کی حکمت عملی کا اعلان کر چکی ہے۔

نریندر مودی نے کوزائی کوڈ میں کچھ روز قبل ایک جلسہ عام سے خطاب سے کہا ’’بھارت سنبھل رہا ہے پوری دنیا میں آپ کو الگ تھلگ کرنے کے لیے‘‘ یہ خطاب دور درشن ٹی وی نے براہ راست نشر کیا تھا۔

سینیڑ مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار نہیں ہے اور چین کی 46 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری اسلام آباد کے مستقبل پر بھروسے کی عکاس ہے۔ انہوں نے بھارت کو نیوکلیرسپلائر گروپ میں شامل نہ ہونے دینے، اقوام متحدہ سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آبزور گروپ بھیجنے کے بیان کو پاکستان کی کامیابی قرار دیا

واشنگٹن میں وائس آف امریکہ کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں مشاہد حسین نے کہا کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو امریکہ میں اعلی سطح پر اٹھا رہے ہیں اور محکمہ خارجہ میں بریفنگ دینے کے بعد جمعے کو وائٹ ہاؤس میں صدر اوباما کی سیکیورٹی ٹیم سے ملاقات کرنے والے ہیں جس میں حالیہ کشیدگی اور متنازعہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تفصیل سے بات ہو گی

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دو لاکھ فوجی مغربی سرحد کے نزدیک علاقوں میں عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کاروائی کر رہے ہیں۔ اگر مشرقی سرحدوں پر کشیدگی برقرار رہی تو انسداد دہشتگردی کی مہم کو سخت نقصان پہنچے گا۔

سینیٹر مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کا حل پائیدار مذاکرات میں ہے اور ان مذاکرات میں کشمیریوں کو بھی فریق بنایا جائے۔ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور اس مسئلے پر کسی فریق سے بات کرنے یا کسی ملک کی ثالثی کو مسترد کرتا ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی نے کوزائی کود میں جلسے سے خطاب میں اصرار تھا کہ پاکستان بھارت کے کشمیر کی فکر کرنے کی بجائے اپنے ملک پر توجہ دے

’’پاکستان کے عوام سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے حکمرانوں سے کہیں کہ جو کشمیر پاس ہے اس کو تو سنبھال لو، پختونستان اور بلوچستان کو تو سنبھال لو پھر ہمارے کشمیر کی بات کرنا۔‘‘

سینیٹر مشاہد حسین نے ورجینیا میں کشمیری کمیونٹی کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ پاکستان کو سفارتی طور پر الگ کرنے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ ان سے جب سوال کیا گیا کہ پاکستان جب امریکہ کا صف اول کا اتحادی رہا ہے اور کشمیر پر اس کے موقف کو عالمی فورمز پر اگر اس کی خواہش کے مطابق نہیں سنا گیا تو آخر اب کیوں کر شنوائی ہو گی، تو انہوں نے کہا کہ امریکہ اور دیگر طاقتیں سمجھتی ہیں کہ دو جوہری ملکوں کے درمیاں کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں لہذا دنیا اس مسئلے پر نہ صرف ہماری بات سن رہی ہے بلکہ سمجھ بھی رہی ہے۔

بھارت کی وزیر برائے خارجہ امور شسما سوراج نے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب میں پاکستان کو دہشتگردی کو فروغ دینے والی ریاست قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو ملک خود اپنے علاقوں بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں عوام کے خلاف فوجی کارروائی کر رہا ہو اس کے منہ سے انسانی حقوق کی بات کرنا اچھا نہیں لگتا۔

XS
SM
MD
LG