پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کی آیبٹ آباد میں موجودگی ان کے لیے حیران کن تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز اسامہ بن لادن کو پناہ دینے میں ملوث ہو سکتی ہیں لیکن یہ انٹیلی جنس اداروں کی نااہلی تھی جس کے لیے جو بھی ذمہ دار ہو اسے سزا ملنی چاہیے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ اپنے خصوصی انٹرویو میں سابق صدر نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور اس ملک نے القاعدہ کے سب سے زیادہ لیڈر پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیے ہیں۔ اگر پاکستان کو اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بارے میں ذرا سابھی شبہ ہوتا تو وہ اسے پکڑنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کرتا۔
جنرل پرویز مشرف کا کہناتھاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے آئی ایس آئی اور سی آئی اے کو مل کرکام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی کو افغانستان کی صورت حال کے حوالے سے 30 سال کا تجربہ ہے اوروہ ماضی میں سودیت قبضے کے خاتمے اور افغانستان میں امن و امان کے قیام کے سلسلے میں کام کرچکی ہے۔ افغانستان مسئلے کا کوئی حل پاکستان کی شرکت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔
http://www.youtube.com/embed/zgWU8nRWJLc
سابق صدر نے کہا کہ ان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دوغلا کردار ادا کرنے کا الزام غلط ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ان کا اب بھی وہی موقف ہے جو ماضی میں تھا کہ تمام طالبان پختون ہیں لیکن تمام پختون طالبان نہیں ہیں۔ ان کا کہناتھاکہ طالبان اور پختون اپنی وضع قطع اور زبان کے لحاظ سے ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں ، لیکن ان میں سے اکثر امن پسند ہیں ۔ جنہوں نے ہتھیار نہیں اٹھائے ہیں ہمیں ان سے بات کرنی چاہیے اور جو بات نہیں سننا چاہتے ان سے جنگ کی جائے۔
مسٹر پرویز مشرف کا کہناتھا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے ہمیں بات چیت اور جنگ دونوں طریقوں سے کام لینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت اس لیے بھی ضروری ہے کہ جنگجوؤں کی نشاندہی پختون ہی کرسکتے ہیں ۔ ہمیں ان سب کے لیے یکساں پالیسی اختیار نہیں کرنی چاہیے اوردہشت گردی کے خلاف جنگ کا نشانہ پوری پختون قوم نہیں بننی چاہیے۔
سابق صدر نے کہا کہ افغان حکومت میں اکثریت تاجک نسل کے افراد کی ہے اور پختونوں کی نمائندگی بہت کم ہے۔افغانستان میں قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ پختونوں کو بھی اقتدار میں شامل کیا جائے اورانہیں ان کا جائز حق دیا جائے۔
امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی خبروں پر جنرل پرویز مشرف کا کہناتھا کہ انہیں معلوم نہیں ہے کہ امریکہ کس گروپ سے بات کررہاہے کیونکہ افغانستان میں طالبان کے مختلف گروپ الگ الگ جنگ لڑ رہے ہیں اور وہ کسی مشترکہ کمان کے تحت نہیں ہیں۔ ان سب کی اپنی اپنی حکمت عملی اوراپنی اپنی سوچ ہے۔ کسی ایک گروپ سے بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا ۔ ہمیں ان سب کو ایک میزپر لانا ہوگا۔
پاکستانی سیاست پرگفتگوکرتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف نے مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی کے اتحاد کو مفادات کا اتحادقرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے دل ایک ساتھ نہیں ہیں ، وہ اپنے اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں اور یہ اتحاد دیرپاثابت نہیں ہوگا۔