یہ جون 2003 ہے اور امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے باہر کیمپ ڈیوڈ کا تاریخی مقام، جہاں اس وقت کے امریکہ کے صدر جارج بش پاکستان کے فوجی صدر پرویز مشرف کا بھرپور استقبال کرتے ہوئے اسلام آباد کے لیے تین ارب ڈالرز کے امدادی پیکج کا اعلان کرتے ہیں۔
کچھ ماہ بعد پاکستان کو امریکہ کا میجر نان نیٹو اتحادی کا درجہ دیا جاتا ہے جس سے پاکستان کے لیے امریکی دفاعی امداد کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ پاکستان پہلے ہی نو ستمبر 2001 کے دہشت گردی کے حملوں کے بعد امریکہ کے افغانستان میں فوجی آپریشن کے لیے انتہائی اہم راہداری مہیا کر چکا ہے اور اس نے سینکڑوں القاعدہ عسکریت پسندوں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے بھی کردیا ہے۔
دونوں ممالک میں 1990 کی دہائی میں پیدا ہونے والی دوری کے تناظر میں کیمپ ڈیوڈ میں گہرے ہوتے دو طرفہ تعاون کو سفارتی سطح پر حالیہ تاریخ میں پاک امریکہ تعلقات کا نقطہ عروج کہا جاتا ہے۔لیکن اس پیش رفت کے چند ہی سالوں میں پاکستان اور امریکہ کے بظاہر وسیع تر ہوتے تعلقات میں اختلافات کی نمایاں خلیج نظر آنے لگتی ہے اور دونوں اطراف سے مشرف دور کے سن 2008 میں خاتمے سے پہلے ہی ناکافی تعاون کی شکایات اور وعدے پورے نہ کرنے کے الزامات کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔
دو عشرے قبل استوار کیے گئے پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعاون کے موضوع پر آج کے حالات میں بھی مختلف آراپائی جاتی ہیں۔ لیکن مبصرین کے نزدیک اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مشرف دور کے اختلافات کی پرچھائیں کب تک پاک امریکہ تعلقات پر پڑتی رہے گی اور کیا آج کے مختلف ماحول میں اس وقت سر اٹھانے والے گھمبیر مسائل اس کے ہوتے ہوئے تعلقات کو از سر نو تعمیر کر سکتے ہیں؟
واشنگٹن کے دی مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے پاکستان اور افغانستان شعبہ کے ڈائریکٹر مارون وائن بام کہتے ہیں امریکہ کے لیے نائن الیون کے فوراً بعد پاکستا ن کا تعاون حاصل کرناایک بڑی کامیابی تھی جبکہ دوسری جانب پرویز مشرف کے امریکہ کے ساتھ تعاون کے فیصلے کو عوامی قبولیت حاصل نہیں تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
"میں کہوں گا کہ دونوں ممالک کے لیے یہ ضرورت کے تعلقات تھے۔ امریکہ نے اس تعلق سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہا جبکہ پاکستان نے بھی دفاعی اور اقتصادی امداد حاصل کی۔"
وہ کہتے ہیں کہ تعلقات میں دراڑ اس وقت پڑی جب امریکہ کے اصرار کے باوجود پاکستان نے افغان طالبان کو مستقبل کے لیے "انشورنس پالیسی" کے طور پر دیکھنا نہ چھوڑا اور ملک میں انہیں محفوظ پناہ گاہیں بھی فراہم کیں۔
"لیکن اگر ہم اس دور کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر حتمی رائے قائم کرنے کی کوشش کریں تو میں مشرف دور میں استوار کیے گئے امریکہ اور پاکستان تعلقات کی میراث کو ملا جلا دیکھتا ہوں ۔ دونوں نے اس سے فائدہ اٹھایا اور دونوں ممالک ہی اس دور کے تعاون سے غیر مطمئن بھی رہے۔"
دوسری جانب پاکستانی امریکی پروفیسر ڈاکٹر عادل نجم ، جو باسٹن یونیورسٹی کے فریڈرک ایس پرڈی اسکول آف گلوبل اسٹڈیز کے ڈین رہے چکے ہیں، کہتے ہیں کہ مشرف دور میں پاک امریکہ تعلقات کے نقصانات ان کے وقتی طور پر نطر آنے والے فوائد سے کہیں زیادہ ثابت ہوئے ہیں۔
" پہلے تو یہ کہ یہ دو غیرمساوی ملکوں کے درمیان تعلقات تھے ، دوسرا یہ کے انہیں ٹرانزیکشنل یعنی تجارتی انداز میں چلایا گیا ، پاکستان نے امریکہ کو سروسز فراہم کیں اور اس کے عوض پاکستان کو ادائیگی کی گئی" ۔
ان کے بقول یہ ٹرانزیکشنل انداز ایسا تھا کہ یہ کبھی بھی دونوں ملکوں کے تعلقات کو قابل عمل طریقے سے آگے نہیں بڑھا سکا اور یوں یہ صحیح معنوں کے تعلقات بن ہی نہ سکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ کہتے ہیں کہ نائن الیون کے واقعات کے بعد ہونے والے تعاون میں بہت ابہام تھا اور افرا تفری کے ان دنوں میں بہت سی باتیں واضح نہیں تھیں، پاکستان کو تعاون حاصل کرنے کے لیے دھمکایا گیا کہ اگر وہ معاون ثابت نہ ہوا تو اس پر بمباری کرکے اسے پتھر کے زمانے میں پیچھے دھکیل دیا جائے گا۔ لہذا پاکستان کے پاس کوئی اور راہ منتخب کرنے کے آپشنز نہیں تھے۔
عادل نجم، جو پاک امریکہ تعلقات پر کئی مضامین تحریر کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے دی گئی امداد سے کچھ پاکستانی اداروں کو تو فائدہ ہوا لیکن اس سے عوام کی بہتری کے لیے کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
وہ کتہے ہیں کہ مشرف دورکے بعد رونما ہونے والے سلالا ملٹری پوسٹ پر حملے جیسے واقعات دونوں ملکوں میں ابتدا ہی سے بننے والی عدم اعتماد کی فضا کے مظہر تھے۔ یہاں تک کہ اس بات سے قطع نظر کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے امریکہ کی مبینہ سازش کا الزام کہاں تک درست ہے یہ مسئلہ بھی اسی دور کے عدم اعتماد کی فٖضا کی گونج سنائی دیتی ہے۔ جبکہ اس سے قبل امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کھلم کھلا کہہ چکے ہیں کہ امریکہ پاکستان پر اعتبار نہیں کرتا۔
پاک امریکہ تعلقات میں اس اتار چڑھاو کے حوالے سے واشنگٹن میں امریکن یونیورسٹی کے ابن خلدون اسلامک اسٹڈیز کے چئیرمین پروفیسر اکبر احمد کہتے ہیں کہ دونوں ممالک میں عدم اعتماد کی تاریخی وجوہات بھی ہیں اور امریکہ اور پاکستان دونوں کی مشرف دور کی پالیسیاں بھی۔ ڈاکٹر اکبر احمد، جو برطانیہ میں پاکستان کے سفیر اور وزیرستان میں پاکستان کی وفاقی حکومت کے نمائندہ ایڈمنیسٹریٹر بھی رہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو خطےکے لوگوں اور ان کی ثقافت کو سمجھنے کی پرواہ کیے بغیر جاری رکھا۔ جبکہ مشرف نے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کا غلط استعمال کرکے بلوچستان کے سیاستدان نواب اکبر بگٹی کو بھی حملے کا نشانہ بنایا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ کہتے ہیں کہ ان سارے حالات کے نتیجے میں پاک امریکہ تعلقات پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے۔ پروفیسر اکبر احمد نے اس سلسلے میں اپنی کتاب 'دی تھسل اینڈ دی ڈرون' کا حوالہ بھی دیا جس کے مطابق مسلم ممالک میں وفاق اور دور افتادہ قبائلی علاقوں میں دوری اور تفاوت رہتی ہے اور ملٹری حکمران مشرف کے دور میں قبائلی علاقوں پر حملوں سے یہ مسئلہ مزید بگڑگیا۔
وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سالوں میں کئے گئے اقدامات کے شا خسانے آج بھی امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پر اثر انداز ہورہےہیں۔
ڈاکٹر اکبر احمد اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ مشرف دور میں امریکی ڈرون حملوں کی کم تعداد مشرف کی پالیسیوں کا نتیجہ تھی۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ اس وقت اس نئی ٹیکنالوجی آگے بڑھا رہا تھا اور قبائلی علاقوں میں ڈرونز کا استعمال اس قسم کے آپریشنز کی اولین مثالوں میں تھا۔ جوں جوں امریکہ نے اس ٹیکنالوجی کو بہتر کیا اس نے خطے میں ڈرون داغنے کی تعداد میں اضافہ بھی کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی دریافت اور اس کے خلاف خفیہ امریکی اسپیشل فورسز کا آپریشن بھی دونوں ملکوں کے تعلقات پر اثر انداز ہوا۔
ان کے بقول پاک امریکہ تعلقات میں اتار چڑھاو اسلام آباد کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کے محرکات میں شامل ہے کیونکہ پاکستان ایک ایسے دوست سے تعلقات بڑھانا چاہتا ہے جو تمام موسموں میں اس کے ساتھ دے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ کی سابق سفیر اور جنوبی ایشیا کے لیے سابق معاون وزیر خارجہ رابن رافیل کہتی ہیں کہ پاکستان خطے کا اہم ترین ملک ہے اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ نائین الیون کے حملوں کے بعد دہشت گردی کی جنگ کے ابتدائی سالوں میں اسلام آباد نے امریکہ سے موثر تعاون کیا اور القاعدہ کے خلاف کئی کامیابیا ں حاصل کیں۔
لیکن وہ پاک امریکہ تعلقات کے کئی پہلووں پر تنقید سے اتفاق کرتی ہیں جیسا کہ امریکہ کو پاکستان کی راہداری کی فراہمی کے لیے رسیدوں پر ادائیگی کرنا کیونکہ، ان کے مطابق، ایسے مسائل دو طرفہ تعلقات کو مزید الجھادیتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔
رافیل، جو مشرف دور کے اختتام پر اور سویلیئن صدر آصف زرداری کے دور کےآغاز میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی امداد کی کوارڈی نیٹر بھی رہیں، کہتی ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر کوئی جلدی میں تھا اور مشرف بھی جلدی سے تعاون کے تمام پہلووں پر راضی ہوگئے کیونکہ ان کے پاس کوئی اور آپشنز موجود نہیں تھے۔
اس وقت کئے گئے فیصلوں اور ترتیب دی گئی پالیسیوں کے موجودہ پاک امریکہ تعلقات پر اثرات کے تناظر میں رافیل کہتی ہیں کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی یہ بات غیر حقیقت پسندانہ ہے کہ پاکستان کو امریکہ کی القاعدہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لینا چاہیے تھا کیونکہ یہ جنگ پاکستان کی سرحد پر ہو رہی تھی اور اور اس میں پاکستان کی شمولیت اور پاکستان کے اس پر اثرات ہونا ناگزیر تھا۔ البتہ وہ اس تنقید سے اتفاق کرتی ہیں کہ امریکہ کو طالبان کے خلاف ایک طویل جنگ نہیں کرنی جاہیے تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کہا کرتا تھا کہ امریکہ ایک دن اس خطے سے واپس چلا جائے گا اور اسے افغانستان کے اندر بننے والی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پشتون آبادی کی حمایت کی ضرورت ہوگی، اور ایسا ہی ہوا۔ وہ کہتی ہیں یہی بات پاکستان کی حقانی گروپ کو پناہ گاہیں دینے کی دوغلی پالیسی پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
انہوں نے پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کئی مواقع میسرہونے کے باوجود اسلام آباد نے وہ اقتصادی اصلاحات نہیں اپنائیں جن کی اسے ترقی کے لیے اشد ضرورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک آزاد خارجہ پالیسی نہیں بنا پاتا۔ جب آپ اپنے خرچوں کے بل اد ا نہیں کر سکتے تو آزاد پالیسی کیسے اختیار کرسکتے ہیں؟
رابن رافیل کے مطابق تقریباً تمام بین الااقوامی تعلقات کے کچھ منفی اور کچھ مثبت پہلوہوتے ہیں اور مشرف کے وقت کی پالیسیوں کے باوجود آجکل کے نئے چیلنجز کے دور میں جبکہ امریکہ پاکستان کے قریبی حلیف چین پر نظریں جمائے ہوئےہے ، پاکستان اور امریکہ اپنے باہمی تعلقات کے مثبت پہلوؤں کو آگے بڑھا کر دوطرفہ تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اس ضمن میں حالیہ کوششیں حوصلہ افزا اور اہم ہیں کیونکہ پاکستان کی اس خطے میں اہمیت کبھی کم نہیں ہو گی۔