سپریم کورٹ نے سابق صدر، وفاق اور دیگر فریقوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ پرویز مشرف ملک سے باہر نا جائیں۔
اسلام آباد —
سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشروف کے خلاف غداری کے مقدمے میں انھیں نوٹس جاری کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ سابق فوجی صدر کے خلاف جب تک درخواستیں نمٹا نہیں دی جاتیں تب تک وہ ملک چھوڑ کر باہر نا جائیں۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں اس مقدمے کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ابتدائی سماعت کے بعد اپنے حکم میں سیکرٹری داخلہ کو ہدایت دی کہ اگر پرویز مشرف کا نام ان افراد کی فہرست میں شامل نہیں ہے جن پر پاکستان کی سر زمین چھوڑ کر کسی دوسرے ملک جانے پر پابندی عائد ہوتی ہے تو فوراً اُن کا نام ’ایگزٹ کنڑول لسٹ‘ میں شامل کیا جائے۔
مقدمے کی سماعت اب منگل کو ہو گی۔
ایک درخواست گزار مولوی اقبال حیدر کے وکیل اے کے ڈوگر نے اپنے دلائل میں عدالت سے استدعا کی کہ سپریم کورٹ وفاقی حکومت کو ہدایت جاری کرے کہ وہ پرویز مشرف کو فوری گرفتار کر کے ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرے جیسا کہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعینی سینٹ نے جنوری میں ایک متفقہ قرارداد میں کہا تھا۔
’’ایک شخص جس نے جرم کا ارتکاب کیا ہے اسے وی ای پی سہولتیں دی جا رہی ہیں بجائے کہ اسے گرفتار کیا جائے اور اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔‘‘
جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ دفاع کے دلائل سن کر ہی طے کیا جائے گا کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے یا نہیں۔
پرویز مشرف کے خلاف پانچ درخواستیں دائر کی گئیں ہیں اور درخواست گزاروں کے وکلاء کے دلائل تھے کہ سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ اپنے فیصلوں میں کہہ چکی ہیں کہ فوج کے سابق سربراہ نے ملک کے آئین کو معلطل کیا اس لیے ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا جائے۔
سماعت کے بعد پرویز مشرف کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی لائیر ونگ کی صدر سیدہ افشاں عادل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سابق صدر کے
تمام فیصلے اس وقت کے حالات کے مطابق کیے گئے تھے۔
افشاں عادل کے بقول اس سے پہلے پرویز مشرف کے خلاف عدالتی کارروائیاں ان کی غیر موجودگی میں یک طرفہ طور پر کی گئی تھیں۔
’’میں اسے قطعی طور پر نہیں مانتی کہ انہوں نے آئین کو توڑا، انہوں نے جو کچھ کیا اس وقت کی ضرورت تھی اور ملک کے لیے ضروری تھا۔ انہوں نے نیک نیتی کے ساتھ سب کچھ کیا اب کوئی اسے غلط لے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘‘
اس سے قبل عدالت عظمٰی نے پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواست ابتدائی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
لیکن چیف جسٹس نے خود کو اس مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ سے الگ کر لیا تھا۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں اس مقدمے کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ابتدائی سماعت کے بعد اپنے حکم میں سیکرٹری داخلہ کو ہدایت دی کہ اگر پرویز مشرف کا نام ان افراد کی فہرست میں شامل نہیں ہے جن پر پاکستان کی سر زمین چھوڑ کر کسی دوسرے ملک جانے پر پابندی عائد ہوتی ہے تو فوراً اُن کا نام ’ایگزٹ کنڑول لسٹ‘ میں شامل کیا جائے۔
مقدمے کی سماعت اب منگل کو ہو گی۔
ایک درخواست گزار مولوی اقبال حیدر کے وکیل اے کے ڈوگر نے اپنے دلائل میں عدالت سے استدعا کی کہ سپریم کورٹ وفاقی حکومت کو ہدایت جاری کرے کہ وہ پرویز مشرف کو فوری گرفتار کر کے ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرے جیسا کہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعینی سینٹ نے جنوری میں ایک متفقہ قرارداد میں کہا تھا۔
’’ایک شخص جس نے جرم کا ارتکاب کیا ہے اسے وی ای پی سہولتیں دی جا رہی ہیں بجائے کہ اسے گرفتار کیا جائے اور اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔‘‘
جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ دفاع کے دلائل سن کر ہی طے کیا جائے گا کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے یا نہیں۔
پرویز مشرف کے خلاف پانچ درخواستیں دائر کی گئیں ہیں اور درخواست گزاروں کے وکلاء کے دلائل تھے کہ سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ اپنے فیصلوں میں کہہ چکی ہیں کہ فوج کے سابق سربراہ نے ملک کے آئین کو معلطل کیا اس لیے ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا جائے۔
سماعت کے بعد پرویز مشرف کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی لائیر ونگ کی صدر سیدہ افشاں عادل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سابق صدر کے
تمام فیصلے اس وقت کے حالات کے مطابق کیے گئے تھے۔
افشاں عادل کے بقول اس سے پہلے پرویز مشرف کے خلاف عدالتی کارروائیاں ان کی غیر موجودگی میں یک طرفہ طور پر کی گئی تھیں۔
’’میں اسے قطعی طور پر نہیں مانتی کہ انہوں نے آئین کو توڑا، انہوں نے جو کچھ کیا اس وقت کی ضرورت تھی اور ملک کے لیے ضروری تھا۔ انہوں نے نیک نیتی کے ساتھ سب کچھ کیا اب کوئی اسے غلط لے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘‘
اس سے قبل عدالت عظمٰی نے پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواست ابتدائی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
لیکن چیف جسٹس نے خود کو اس مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ سے الگ کر لیا تھا۔