|
ویب ڈیسک — امریکہ کے اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ ارب پتی تاجر ایلون مسک نے نوے کی دہائی میں اپنی نئی کمپنی بنانے کے دوران امریکہ میں غیر قانونی طور پر کام کیا۔ ایلون مسک نے اس رپورٹ کی تردید کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے ایلون مسک نے ایسے وقت میں اپنی اسٹارٹ اپ کمپنی بنائی جب اُن کے پاس اس کے لیے قانونی دستاویزات نہیں تھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایلون مسک 1995 میں کیلی فورنیا کی اسٹینفرڈ یونی ورسٹی میں داخلے کی غرض سے پالو آلٹو پہنچے تھے۔ لیکن اُنہوں نے یونی ورسٹی کے گریجویٹ پروگرام میں انرولمنٹ کے بجائے سافٹ ویئر کمپنی 'زپ 2' کی بنیاد رکھی۔ جو بعد ازاں 1999 میں 30 کروڑ ڈالرز میں فروخت ہوئی۔
ایلون مسک نے اتوار کو 'ایکس' پر اس رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانونی طور پر اُنہیں امریکہ میں کام کرنے کی اجازت تھی۔
مسک کا کہنا تھا کہ "میرے پاس جے- ون ویزا تھا جو ایچ ون-بی ویزے میں تبدیل ہو گیا تھا۔"
واضح رہے کہ جے-ون ویزا غیر ملکی طلبہ کو امریکہ میں تعلیم، ریسرچ، ایجوکیشنل ٹریننگ اور ٹیچنگ کے لیے دیا جاتا ہے جب کہ ایچ ون-بی ویزے کے حامل غیر ملکی افراد امریکہ میں عارضی طور پر کام کر سکتے ہیں۔
امیگریشن قوانین کے دو قانونی ماہرین نے اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کو بتایا کہ ایک طالبِ علم کے طور پر کام کرنے کے لیے ایلون مسک کی یونی ورسٹی کے مکمل کورس میں انرولمنٹ لازمی تھی۔
سن 2020 میں ایک پوڈکاسٹ کے دوران ایلون مسک نے کہا تھا کہ "میں قانونی طور پر یہاں تھا اور میرا بنیادی مقصد طالبِ علم کے طور پر کام کرنا تھا۔ لیکن مجھے کسی بھی طرح کا کام کرنے کی اجازت تھی۔"
'واشنگٹن پوسٹ' نے اپنی رپورٹ میں مسک کے دو ساتھیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایلون مسک کو 1997 کے آس پاس امریکہ میں کام کرنے کی اجازت ملی تھی۔
ارب پتی ایلون مسک آئندہ ماہ صدارتی انتخابات کے لیے ری پبلکن اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔
ٹرمپ تارکینِ وطن کے حوالے سے سخت مؤقف رکھتے ہیں اور کئی تارکینِ وطن کو 'درانداز' اور 'مجرم' بھی کہتے رہے ہیں۔ اپنے دورِ صدارت کے دوران ٹرمپ غیر قانونی ہجرت روکنے کے لیے سخت اقدامات اقدامات کرتے رہے ہیں۔
اس رپورٹ کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔