الیکٹرک کاریں بنانے والی کمپنی ٹیسلا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) اور دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے44 ارب ڈالر میں ٹوئٹر کو خریدنے کی ڈیل کو ختم کردیا ہے۔مسک نے الزام عائد کیا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنی نے معاہدے کی بعض شقوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
ٹوئٹر کے بورڈ کے چیئرمین بریٹ ٹیلر نے جمعہ کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ کمپنی طے شدہ شرائط کے مطابق معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے قانونی راستہ اختیار کرے گی۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق معاہدے سے دست بردار ہونے کے عوض ایلون مسک ٹوئٹر کو ہرجانے کے طور پر ایک ارب ڈالر ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم ٹوئٹر انتظامیہ نے عندیہ دیا ہے کہ معاہدہ برقرار رکھنے کے لیے قانونی راستہ اختیار کیا جائے گا۔
ایلون مسک کے اعلان کے ساتھ ہی جمعہ کو ٹوئٹر کے حصص 5 فی صد گر کر 31 اعشاریہ 81 ڈالر پر آگئے جب کہ ٹیسلا کے حصص ڈھائی فی صد بڑھ کر 752 اعشاریہ 29 ڈالر تک پہنچ گئے۔
ایلون مسک کے وکیل مائیک رنگلر نے ٹوئٹر کو جمعے لکھے گئے خط میں کہا کہ تقریباً دو ماہ قبل مسک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ''جعلی یا اسپام'' اکاؤںٹس کے پھیلاؤ کا اندازہ لگانے کے لیے ڈیٹا طلب کیا۔ مگر ٹوئٹر یہ معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ معلومات ٹوئٹر کے کاروبار اور مالیاتی کارکردگی کے لیے بنیاد تھیں اور یہ معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے ضروری تھیں۔
اس سے قبل جمعرات کو ٹوئٹر نے کمپنی ایگزیکٹو اور صحافیوں کے ساتھ بریفنگ میں اسپام اکاؤنٹس کو کس طرح شمار کیا جاتا ہے اس پر مزید روشنی ڈالی۔
ٹوئٹر نے کہا کہ وہ روزانہ 10 لاکھ اسپام اکاؤنٹس ختم کرتا ہے۔ اسپام اکاؤنٹس ہر سہ ماہی کے فعال صارفین کا 5 فی صد سے بھی کم ہوتے ہیں۔ یہ جاننے کے لیے کہ کتنے اکاؤنٹس بدنیتی پر مبنی اسپام ہیں، ٹوئٹر کا کہنا تھا کہ وہ ''ہزاروں اکاؤنٹس'' کا جائزہ لیتا ہے جو رینڈم طریقے سے سیمپل کیے گئے ہوتے ہیں۔
گزشتہ ماہ سامنے آنے والی مختلف رپورٹس کے مطابق ٹوئٹر نے مسک کو روزانہ لاکھوں ٹویٹس پر اپنے خام ڈیٹا کے 'فائرہوز' تک رسائی کی پیش کش کی تھی۔ البتہ ٹوئٹر اور ایلون مسک نے اس کی تصدیق نہیں کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ یہ پرائیویٹ ڈیٹا حقیقی اکاؤنٹس کو اسپام کے طور پر غلط شناخت کرنے سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ٹوئٹر نے معاہدے کی متعدد دفعات کی خلاف ورزی کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس میں غلط اور گمراہ کن نمائندگی کی ہے جس پر ایلون مسک نے معاہدے کے وقت بھروسہ کیا تھا۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔